ملک کے معروف عالم دین،مشہور زمانہ کتاب مغربی میڈیا اور اس کے اثرات کے مصنف ،دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے سینئر استاذ اور کلیۃ اللغۃ و العربیہ کے عمید مولانا نذر الحفیظ ندوی ازہری کا آج لکھنؤ میں انتقال ہوگیا۔وہ ۸۱؍برس کے تھے۔آج صبح ۱۱؍بجے اچانک طبیعت خراب ہوئی جس کے بعد انہیں فوری ہسپتال لے جایا گیا جہاں تقریبا ساڑھے 12:50 بجے انہوں نے آخری سانس لی۔ انال لہ واناالیہ راجعون۔
مولانا نذر الحفیظ ندوی بن قاری عبد الحفیظ کی ولادت سنہ 1939ء میں بہار کے قصبہ ململ، ضلع مدھوبنی میں ہوئی۔ نذر الحفیظ ندوی کے والد قاری عبد الحفیظ ایک عالم دین اور اردو زبان کے شاعر تھے، انہوں نے مدرسہ عزیزیہ بہار شریف کے علاوہ جونپور اور الہ آباد کے مدارس میں تعلیم حاصل کی تھی۔ فراغت کے بعد مدرسہ کافیۃ العلوم پرتاپ گڑھ میں 1931ء سے 1985ء تک پڑھاتے رہے۔ قاری عبد الحفیظ مشہور نقشبندی شیخ محمد احمد پرتاپ گڑھی کے خلفاء میں سے تھے۔ مولانا کا خاندان دینداری میں مشہور تھا۔
*حصول تعلیم و تدریس*
نذر الحفیظ ندوی کی ولادت قصبہ ململ ضلع مدھوبنی میں ہوئی۔ بچپن پرتاپ گڑھ میں گزرا۔ اپنے والد کے پاس قرآن حفظ کرنے کے بعد دینی تعلیم کے حصول کے لیے دار العلوم ندوۃ العلماء کا رخ کیا، یہاں عربی اول میں ان کا داخلہ ہوا۔ دار العلوم ندوۃ العلماء میں سید ابو الحسن علی حسنی ندوی، محمد اویس نگرامی ندوی، ابو العرفان خان ندوی، عبد الحفیظ بلیاوی، ایوب اعظمی، اسحاق سندیلوی، محمد رابع حسنی ندوی، مفتی محمد ظہور ندوی اور دیگر اساتذہ سے تعلیم حاصل کی،1962ء میں عالمیت اور 1964ء میں فضیلت کرنے کے بعد دار العلوم ندوۃ العلماء میں بحیثیت استاذ مقرر ہو گئے۔ 1975ء میں اعلی تعلیم کے لیے مصر گئے، وہاں کلیۃ التربیہ، عین شمس یونیورسٹی سے بی ایڈ کیا اور 1982ء میں جامعہ ازہر سے عربی ادب و تنقید میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ قاہرہ سے واپسی کے بعد دوبارہ دار العلوم ندوۃ العلماء میں تدریس سے وابستہ ہو گئے جہاں تاحال عربی زبان و ادب کے استاذ تھے ۔ اس وقت دار العلوم ندوۃ العلماء کے کلیۃ اللغۃ العربیۃ و آدابہا کے عمید بھی تھے ۔
*صحافتی خدمات*
مولانا نذر الحفیظ ندوی کو ابتدا سے ہی صحافت سے خاص دلچسپی تھی ۔ مصر کے زمانۂ قیام کے دوران ریڈیو مصر سے وابستہ رہے۔ بعد میں پندرہ روزہ تعمیر حیات-لکھنؤ کے مدیر مسئول بھی رہے، پندرہ روزہ الرائد، ہفت روزہ ندائے ملت اور سہ ماہی کاروان ادب کے ادارتی رکن رہ چکے تھے۔ ان جرائد میں مولانا کے سیکڑوں مضامین شائع ہوئے۔
*تصانیف*
انہوں نے متعدد کتابیں تصنیف کیں جن میں سے اہم یہ ہیں:
مغربی میڈیا اور اس کے اثرات: اس کتاب کے متعدد زبانوں جیسے عربی، انگریزی، ملیالم، بنگلہ وغیرہ میں ترجمے ہوئے۔ عربی میں یہ کتاب الإعلام الغربي وتأثيره في المجتمع اور انگریزی میں Western Media and its impact on society کے عنوان سے شائع ہوئی۔
الزمخشري كاتبا وشاعرا(عربی)
أبو الحسن علي الحسني الندوي كاتبا ومفكرا(عربی)
ملفوظات مولانا سید ابو الحسن علی ندوی،
(مجالس علم و عرفاں)
ترتیب کشکول محبت (کلام مولانا عبد الحفیظ حافظ)
ان کے علاوہ ایک بڑا علمی سرمایہ ان کے مقالات و مضامین کی شکل میں ہے جو مختلف رسائل و جرائد کی شکل میں شائع ہوئے۔
اعزازات
نذر الحفیظ ندوی کی عربی زبان و ادب کی خدمات کے اعتراف میں 2002ء میں ان کو صدر جمہوریہ ایوارڈ ملا۔
نومبر۲۰۰۵ میں آپ کی خدمات کے اعتراف میں آپ کے وطن کے اہل دانش اور وہاں کے نوجوان فضلاء کی جانب سے مجاہد آزادی محمد شفیع بیرسٹر کے نام سے موسوم ’شفیع بیرسٹرایوارڈ‘سے نوازاگیا۔۔
مرتب : اسجد حسن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مولانا نذر الحفیظ ندوی : حیات و خدمات
Related Posts
دو مرتد لڑکیوں کی ایک ہی ہندو نوجوان سے شادی !
لکھنو کے ترون گپتا کا فضا اور ثناء سے شادی کا دعویٰ،لڑکیاں نماز کے ساتھ ہنومان چالیسہ بھی پڑھتی ہیںممبئی۔۱۷؍ دسمبر: ان دنوں لکھنو کے ایک نوجوان کا سوشل میڈیا پر انٹرویو خوب وائرل ہورہا ہے، ترون گپتا نامی شخص کا دعویٰ ہے کہ وہ ہندو ہے اور اس کی دو بیویاں ثناء انصاری اور فضا منصوری مسلم ہیں دونوں ایک ہی ساتھ ایک ہی گھر میں رہتے ہیں۔ نوجوان کاکہنا ہے کہ اس نے دو شادیاں کی ہیں اور دونوں ہی مسلم لڑکیاں تھی، نوجوان کاکہنا ہے کہ یہ دونوں شادیاں اس کی قسمت میں تھی ساتھ ہی یہ اتفاق ہے کہ اس کی دونوں بیویاں مسلم ہیں۔ تینوں نے مل کر اپنی ’لواسٹوری‘ لوگوں کے ساتھ شیئر کی ہے۔ لکھنو کا رہنے والے ترون گپتا اپنی دونوں بیویوں کے ساتھ ہی ایک ہی گھر میں رہتا ہے، ۲۰۱۶ میں ترون نے اپنی پہلی بیوی کو پرپوز کیا تھا اس کے بعد ۲۰۲۲ میں دونوں نے شادی کی، ایک سال بعد نوجوان کی دوسری لڑکی سے ملاقات ہوئی جو بھی مسلم ہی تھیں، اس کے بعد ترون نے ۲۰۲۳ میں دوسری شادی کرلی، ترون اپنی دونوں بیویوں کے ساتھ ایک ہی گھر میں رہتا ہے، جب دونوں بیویوں سے بات چیت کی گئی تو انہوں نے بتایاکہ دونوں بہنوں کی طرح رہتی ہیں، ساتھ ہی انہیں دوست کی کمی نہیں ہوتی۔ ترون کی دونوں بیویاں نماز بھی پڑھنے کا دعویٰ کرتی ہے، اس کے علاوہ دونوں ہندو دھرم کو بھی مانتی ہے، ہندو کے منتر پڑھنے سے انہیں کوئی گریز نہیں ہے، جب کیمرے کےسامنے دونوں کو جے شری رام پڑھنے کو کہاگیا تو دونوں نے بے دھڑک اسے پڑھا، جیسے ہی نوجوان کی لو اسٹوری سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی یہ خوب وائرل ہورہی ہے، حالانکہ کئی لوگوں نے کہاکہ یہ تینوں ہندو ہی ہیں اور صرف وائرل ہونے کے لیے جھوٹی کہانی گڑھ رہے ہیں، وہیں کئی لوگوں نے لکھا کہ اگر یہ سچ ہے تو ان لڑکیوں کو اب مسلم نہیں کہاجاسکتا، اب یہ ہندو ہوچکی ہیں۔ ویڈیو میں یہ لڑکیاں…
Read moreالمعہد العالی الاسلامی حیدرآباد میں شعبہ تدریب قضاء کا آغاز
ہندوستان میں مفکر اسلام حضرت مولانا ابو المحاسن محمد سجاد رحمہ اللہ نے فکر امارت اور نظام قضاء کے نظریہ کو بڑی قوت کے ساتھ پیش کیا، اس پر آنے والے شبہات و اعتراضات کے جوابات دیے اور اس خاکہ میں رنگ بھرا۔ آج ملک میں قانون شریعت کے تحفظ کا سب سے اہم ذریعہ نظام قضاء ہے، اس کی توسیع اور تحفظ ہمارا دینی فریضہ ہے۔ اللہ جزائے خیر دے فقیہ النفس حضرت مولانا قاضی مجاہد السلام قاسمی رحمہ اللہ کو؛ کہ انہوں نے اسلام کے عدالتی نظام کی وضاحت، اس کے نفاذ کے طریقے اور مطلوبہ افرادی طاقت فراہم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ابھی ملک میں کم و بیش 300 دارالقضاء قائم ہیں، ان میں سے سو کے قریب آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے تحت کام کر رہے ہیں، صرف ان میں ہر سال 5000 سے زائد مقدمات حل کیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ سینکڑوں نزاعات کو گفت و شنید اور کونسلنگ کے ذریعہ حل کر دیا جاتا ہے۔ ابھی ملک کی عدالتوں میں 25000 سے کچھ زائد ججوں کی اسامیاں ہیں، اندازہ لگائیں کہ 140 کڑور کی آبادی میں پچیس ہزار ججوں سے کیاہی ہوپائے گا۔ چند سالوں پیشتر یہ اعداد و شمار پیش کیے گئے تھے کہ عدالتیں اگر زیر دوراں مقدمات پر اکتفا کریں، نئے مقدمات نہ لیں، تو زیر دوراں مقدمات کو مکمل کرنے کےلیے ساڑھے تین سو سال درکار ہوں گے۔ دارالقضاء ملک میں کوئی متبادل عدالتی نظام نہیں ہے، ہاں یہ خارج عدالت نزاعات کے تصفیہ کی کامیاب کوشش ہے، 2014 میں سپریم کورٹ کا ایک فیصلہ بھی اس بابت موجود ہے۔ تربیت قضاء کا کورس المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد میں شروع کیا جارہا ہے، ایک جامع نصاب تیار کیا گیا ہے اور کونسلنگ کی جدید مہارتیں بھی شامل رکھی گئی ہیں۔اس افتتاحی اجلاس کی صدارت معروف فقیہ حضرت مولانا عتیق احمد بستوی(کنوینر شعبہ دارالقضاء بورڈ) نے کی، صدر بورڈ حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کی نگرانی و سرپرستی رہی، اس موقع پر حضرت مولانا شاہ جمال الرحمن صاحب، جناب قاضی اشفاق…
Read more