ڈاکٹر مفتی محمد شاہ جہاں ندوی
(قسط: 3)
اس مرکب اضافی کا دوسرا لفظ “مقاصد” ہے-مقاصد کی لغوی تعریف:”مقاصد” “مقصد” کی جمع ہے- “مقصد” اسم ظرف مکان ہے، اس کے معنی ہیں: جائے قصد، قصد کی جگہ- جبکہ “مقصد” صاد کے فتحہ کے ساتھ مصدر میمی ہے- “قصد” باب ضرب سے آتا ہے، اس کے اصلی معنی ہیں: کسی چیز کی طرف بالارادہ توجہ اور رخ کرنا- مشہور لغت نویس علامہ ابن منظور محمد بن مکرم انصاری افریقی مصری – رحمۃ اللّٰہ تعالیٰ علیہ-(و: 711ھ/1311ء) لفظ “قصد”کے اصل مفہوم کی وضاحت کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:”أصل “ق ص د” و مواقعها في كلام العرب: الاعتزام والتوجه والنهود والنهوض نحو الشيء، على اعتدال كان ذلك أو جور، هذا أصله في الحقيقة”. (ابن منظور، لسان العرب 3/353، ط:1، بیروت، دار صادر)- ( کسی چیز کا پختہ ارادہ کرنا، تہیہ کرنا، کسی چیز کی طرف رخ کرنا اور کسی چیز کی طرف اٹھ کھڑا ہونا، خواہ اعتدال و درستگی کے ساتھ ہو، یا انحراف کے ساتھ ہو- کلام عرب کے مواقع استعمال سے “ق ص د” کے یہی اصلی معنی نکلتے ہیں)-اس اصلی معنی کے علاوہ پانچ دیگر معانی میں بھی “قصد” کا استعمال ہوتا ہے:1
– کسی کام میں میانہ روی اختیار کرنا- عرب بولتے ہیں: “قصد في الأمر” (اس نے معاملہ میں درمیانی راہ اختیار کی)-2
– کسی چیز کو بالارادہ کاٹنا، یا ٹکڑے ٹکڑے کرنا- بولا جاتا ہے: “قصد العود” (اس نے لکڑی کو توڑدیا، یا لکڑی کے ٹکڑے کر دیئے)-3
– راستہ کا سیدھا ہونا- عربی زبان میں بولا جاتا ہے: “قصد الطريق” (راستہ سیدھا ہوگیا)-4
– پر ہونا اور گودے دار ہونا، چنانچہ گودے دار اور پر گوشت اونٹنی کو “ناقة قصيد” کہتے ہیں-5
– قریب اور آسان ہونا- عرب بولتے ہیں: “بيننا و بين الماء ليلة قاصدة” (ہمارے اور پانی کے درمیان ایک رات کا آسان اور بے مشقت سفر ہے)-لغوی اور اصطلاحی معنی میں ہم آہنگی:مقاصد کے تعین میں بھی شریعت کی نصوص اور دلائل کے استقراء کی طرف توجہ ہوتی ہے، اس لیے ان کو مقاصد سے تعبیر کیا جاتا ہے-مقاصد کی اصطلاحی تعریف:”مقاصد” وہ حکمتیں ہیں جو احکام سے مقصود ہوتی ہیں؛ تاکہ اللہ تعالیٰ کی عبودیت و بندگی وجود میں آئے اور دنیا اور آخرت میں بندوں کا نفع ہو-یہ مقاصد کی سب سے اچھی تعریف ہے؛ کیونکہ یہ “مقاصد” کو بندوں کی جہت میں منحصر نہیں کرتی ہے- نیز یہ تعریف کلی و جزئی اور عام و خاص ہر طرح کے مقاصد کو شامل ہے، اور تمام احکام کے مقاصد اس میں داخل ہیں-در حقیقت ایک علم کی حیثیت سے ” مقاصد” کی تعریف ماضی قریب میں معروف ہوئی ہے، اگرچہ معنی کے لحاظ سے ” مقاصد” کی تعریف ماضی بعید میں بھی موجود تھی- فلسفی اسلام امام غزالی ابو حامد محمد بن محمد طوسی شافعی – رحمۃ اللّٰہ تعالیٰ علیہ- (و:505ھ/1111ء) تحریر فرماتے ہیں: “أما المصلحة فهي عبارة عن جلب منفعة أو دفع مضرة، و لسنا نعني به ذلك؛ لأنه متفق عليه….لكننا نعني بالمصلحة: المحافظة على مقصود الشرع، و مقصود الشرع من الخلق خمسة: و هو أن يحفظ عليهم دينهم و نفسهم و عقلهم و نسلهم و مالهم”. (غزالی، المستصفی 1/416-417)- ( بہر حال مصلحت تو اصل میں تحصیل منفعت یا ازالہ مضرت کا نام ہے-
البتہ اس جگہ اس سے ہماری مراد یہ مفہوم نہیں ہے؛ اس لیے کہ اس پر تو اتفاق ہے….لیکن ( اس جگہ) مصلحت سے ہماری مراد شریعت کے مقصد کا تحفظ ہے- اور مخلوق سے شریعت کا مقصد پانچ چیزوں ( کا تحفظ ہے)، یعنی شریعت کا مقصد یہ ہے کہ ان کے دین و مذہب، جان، عقل، نسل اور مال کا تحفظ کرے)-