
از : ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
کیا سفر میں ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کی نمازیں ایک ساتھ پڑھی جاسکتی ہیں ؟
اس سلسلے میں معروف یہ ہے کہ حنفی مسلک میں یہ جائز نہیں ہے – حنفی علماء جمع صوری کی اجازت دیتے ہیں ، یعنی ظہر کی نماز بالکل آخری وقت میں پڑھی جائے اور عصر کی نماز بالکل اوّل وقت میں ، اسی طرح مغرب کی نماز بالکل آخری وقت میں پڑھی جائے اور عشاء کی نماز بالکل اوّل وقت میں – وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمام نمازوں کے اوقات متعین کردیے ہیں – صرف دو صورتیں مستثنیٰ ہیں : ایامِ حج کے دوران میں 9 ذی الحجہ کو عرفات میں زوال کے بعد جمع تقدیم ، یعنی ظہر کے وقت میں ظہر اور عصر کی نمازیں ایک ساتھ پڑھنا اور غروبِ آفتاب کے بعد مزدلفہ پہنچ کر جمع تقدیم ، یعنی مغرب اور عشاء کی نمازیں عشاء کے وقت میں پڑھنا – ان دو مواقع کے سوا کسی نماز کو اس کے وقت کے علاوہ دوسرے وقت میں پڑھنا جائز نہیں ہے –
یہ حضرات اپنے اس موقف پر بعض احادیث اور آثارِ صحابہ سے استدلال کرتے ہیں ، جس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں ہے – (فتاویٰ شامی ، كتاب الصلاة ، ج1 ، ص :381) دیگر فقہاء (امام مالک ، امام شافعی اور امام احمد) کے نزدیک جمع بین الصلاتین (دو نمازوں کو جمع کرنا) کی دونوں صورتیں جائز ہیں – جمعِ تقدیم بھی ، یعنی ظہر کے وقت میں ظہر اور عصر اور مغرب کے وقت میں مغرب اور عشاء دونوں نمازیں پڑھ لینا ، اور جمعِ تاخیر بھی ، یعنی عصر کے وقت میں ظہر اور عصر اور عشاء کے وقت میں مغرب اور عشاء کی نمازیں ادا کرنا –
ان حضرات کا استدلال بعض ان احادیث سے ہے جن میں رسول اللہ ﷺ کے جمع بین الصلاتین کا عمل انجام دینے کا ثبوت ملتا ہے – مثلاً صحیح مسلم میں حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت میں وہ بیان کرتے ہیں : “خرجنا مع النبي ﷺ في غزوة تبوك فكان يصلي الظهر والعصر ، جميعاً ، والمغرب والعشاء جميعاً ( مسلم : 706) ” ہم نبی ﷺ کے ساتھ غزوۂ تبوک میں نکلے تو آپ ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کو ایک ساتھ پڑھتے تھے – “
جمع صوری کو اختیار کرنا بہ ظاہر دشوار معلوم ہوتا ہے – شاید اسی لیے موجودہ دور کے بعض حنفی علماء نے جمع بین الصلاتین کو مطلق جائز قرار دیا ہے – مثال کے طور پر مولانا عبد الشکور فاروقی اور علامہ سید سلیمان ندوی کا نام پیش کیا جاسکتا ہے – اب حنفی مسلک پر عمل کرنے والے بہت سے لوگوں کا عمومی رجحان مطلق جمع بین الصلاتین کی طرف ہوگیا ہے –
سفر کی زیادہ سے زیادہ مدّت 14 دن ہے – چنانچہ ان کا کہیں چند دنوں کے لیے قیام ہو تو وہ بلا تکلّف قصر نماز پڑھنے کے ساتھ دو نمازوں کو جمع کرلیتے ہیں – اس سلسلے میں علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا ایک فتویٰ نظر سے گزرا ، جو قابلِ غور معلوم ہوتا ہے – ان سے دریافت کیا گیا کہ سفر میں جمع بین الصلاتین افضل ہے یا قصر؟ اس کا انھوں نے یہ جواب دیا : “بَلْ فِعْلُ كُلِّ صَلَاةٍ فِي وَقْتِهَا أَفْضَلُ إذَا لَمْ يَكُنْ بِهِ حَاجَةٌ إلَى الْجَمْعِ ، فَإِنَّ غَالِبَ صَلَاةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّتِي كَانَ يُصَلِّيهَا فِي السَّفَرِ إنَّمَا يُصَلِّيهَا فِي أَوْقَاتِهَا . وَإِنَّمَا كَانَ الْجَمْعُ مِنْهُ مَرَّاتٍ قَلِيلَةً” ( مجموع الفتاوى : 24 /19) ” ہر نماز کو اس کے وقت میں ادا کرنا افضل ہے ، اگر دو نمازوں کو جمع کرنے کی کوئی ضرورت نہ ہو – اس لیے کہ سفر میں رسول اللہ ﷺ زیادہ تر نمازیں ان کے اوقات میں ادا کرتے تھے – آپ نے بہت کم مواقع پر جمع بین الصلاتین کیا ہے – “ انھوں نے مزید فرمایا :”وَهَذَا يُبَيِّنُ أَنَّ الْجَمْعَ لَيْسَ مِنْ سُنَّةِ السَّفَرِ كَالْقَصْرِ ؛ بَلْ يُفْعَلُ لِلْحَاجَةِ سَوَاءٌ كَانَ فِي السَّفَرِ أَوْ الْحَضَرِ” (مجموع الفتاوى : 24 /64) ” اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سفر میں قصر کی طرح جمع سنّتِ نبوی نہیں ہے – بلکہ ایسا صرف وقتِ ضرورت کیا جائے گا ، چاہے سفر میں ہو یا حضر میں – “
نماز کے سلسلے میں قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :اِنَّ الصَّلٰوةَ كَانَتۡ عَلَى الۡمُؤۡمِنِيۡنَ كِتٰبًا مَّوۡقُوۡتًا (النساء :103)” نماز درحقیقت ایسا فرض ہے جو پابندئ وقت کے ساتھ اہلِ ایمان پر لازم کیا گیا ہے – “ اللہ کے رسول ﷺ نے اپنے عمل سے ہر نماز کے اوّلِ وقت اور آخرِ وقت کی تعیین فرمادی تھی اور ہمیشہ ہر نماز کو اس کے وقت کے اندر ہی ادا کرنے کا اہتمام فرمایا ہے – سفر کے دوران میں جہاں کہیں آپ قیام فرماتے وہاں قصر تو کرتے تھے ، لیکن جمع بین الصلاتین نہیں کرتے تھے ، بلکہ ہر نماز کو اس کے وقت میں ادا فرماتے تھے ، البتہ سفر جاری رہنے کی صورت میں بعض اوقات آپ نے جمع بین الصلاتین کیا ہے –
اس لیے آپ کی سنّت کی اتباع کا تقاضا ہے کہ دورانِ سفر کہیں قیام ہو اور ہر نماز کو اس کے وقت میں ادا کرنا ممکن ہو تو اس کا اہتمام کرنا چاہیے ، لیکن اگر دو نمازوں (ظہر و عصر اور مغرب و عشاء) میں سے کسی نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنا ناممکن یا زحمت طلب ہو تو جمع بین الصلاتین کیا جاسکتا ہے –