۔ از : الطاف جمیل شاہ سوپور کشمیر
حرف اول ۔۔۔
( امسال موسم سرما کے تیور کچھ الگ ہی محسوس ہوئے نئی پود کو تو چلہ کلاں نے حیران کردیا پانی کے نل جم گے منہ دھونے کے لئے بھی گھروں میں پانی کی آوا جاہی رکی رہی اکثر گھروں میں مرد و خواتین نے ایسی تکلیف محسوس کی جس کا انہیں اندازہ نہ تھا سبب یہ تھا کہ کئی سال سے موسم سرما نے اپنی اصل چھوڑ کر کچھ خیر سے اپنے لمحات گزار لئے تھے سو اہلیان وادی یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ چلو اب چلے کلاں کا موسم بھی خشک ہی گزر جاتا ہے اور اہلیان وادی اب گرم علاقوں کے رہنے والوں کی طرح بود و باش اختیار کر رہے تھے کہ امسال چلہ کلاں نے آتے ہی ادھم مچا دی اور لوگوں کو احساس ہوا کہ یہ تو اب تک ویسا ہی ہے خیر اسی دوران کل یوم جمعہ پر نماز سے فارغ ہوتے ہی برف باری شروع ہوئی اور ہمارے بچپن کی یادیں تازہ ہوگی سو سوچا آپ کو یاد دلاؤں)
کشمیر دنیا کا ایک ایسا خوبصورت اور دلکش مناظر سے مالا مال خطہ ارضی ہے جس کا حسن جس کے آبشار و کہسار اس کے سینے پر رواں بہتے ندی نالے اس کے ماتھے کا جومر ڈل نامی پانی کا ایک پیارا سا جھیل جو اپنے حسن و جمال کا ثانی رکھے بنا دعوت نظارہ دیتا ہے یہاں کے بہتے ٹھنڈے اور میٹھے پانی کے جھرنے عجب دلکش نظارہ پیش کرتے ہیں جنہیں دیکھ کر بڑے سے بڑا عقل و دانش کا مالک بھی ورطہ حیرت میں پڑھ جاتا ہے پر اس سے آگئے بڑھ کر دیکھئے تو وادی کشمیر میں موسم سرما کے ساتھ جو برف باری ہوتی ہے یہ برف باری کہنے والوں کے مطابق پانی کی مقدار کو بر قرار رکھنے کے لئے لازم ہے اب جتنی برف باری ہوگئی اسی قدر پانی کی مقدار بڑھ جائے گی مجھے دنیا کے بقیہ ممالک کے بجائے اپنی وادی سے ہی انسیت اور محبت ہے اس لئے اسی کی بات کرتا ہوں یہاں کے کسان پیشہ لوگ تب خوشیاں مناتے ہیں جب باری برف باری ہوتی ہے وہ کہتے ہیں کہ اس سے ہمارے کھیتوں کی پیاس بجھ جاتی ہے اور فصل کی پیداوار کے لئے یہ ایک نیک شگون ہے اب چلتے ہیں بچوں کی دنیا میں کہ وہ برف باری سے کیسے لطف اندوز ہوتے ہیں
آج سے تقریبا تیس سال پہلے کی بات ہے ۱۹۹۰ کے آس پاس جب پہاڑی علاقوں میں بہت زیادہ برف باری ہوئی میں تب بچہ تھا ہمارے ایک پیارے سے چچا تھے قد کے لحاظ سے سب سے قدآور اور بچوں کے لئے عالم کے سب سے لمبے آدمی کیونکہ ہ۔ہماری نظر محبت یا ان کی مار پیٹ کے سبب نظر عداوت ان کے چہرے تک پہنچتی نہ تھی وہ اس برف باری کے دن جب زیادہ برف باری ہوئی اپنے گھر کی چھت سے برف ہٹا رہے تھے کہ برف میں دھنس گئے اور ہم تھے کہ ہنس رہے تھے کیونکہ وہ سر تک برف میں سما گئے تھے خیر اتنی زیادہ برف باری بھی وبال جان ہی بنتی ہے ان غریب اور دور دراز علاقہ جات میں رہنے والوں کے لئے جنہیں کوئی ضرورت ہو وہ مہینوں تک سفر کرنے کی کوشش تو کیا ارادہ بھی نہیں کرسکتے کیونکہ اکثر راستے برف باری کے نتیجے میں ناقابل عبور و مرور ہوجاتے ہیں اب گر بارف باری ہلکی پھلکی ہو تو یہ بچوں کے لئے خوب مزے کی بات ہوتی بچے لوگ خوب کھیلتے ہیں کوئی گھر کا برتن جس کا منہ پڑا اس ہو لے کر نکلتا ہے اور اسی برتن کو استعمال کرنے کے لئے اس پر بیٹھ کر اپنے پیر آگئے پڑھ کر کسی اونچی جگہ پر برتن رکھ دیتا ہے کوئی دوسرا بچہ اس بچے کی مدد کرنے کے لئے برتن کو دھکا دے دیتا ہے اور سوار بچہ اسی برتن کو پکڑے اچھلتا گرتا پڑتا نیچے چلا جاتا ہے یا آجکل کی نئی تیکنیک استعمال کرتے ہوئے پالتھین پر بیٹھ کر ایسا ہی مزہ لیا جاتا ہے ایسے ہی بچے برف جمع کر لیتے ہیں اور دن بھر خوب اس برف کے نقش و نگار سے تصاویر بناتے ہیں کبھی کسی بچے کی یا مرد و عورت کی اور اس پر خوب کوشش کرتے ہیں کہ یہ کام کمال کا ہو کچھ لوگ کسی جانور کے نقشے بنا دیتے ہیں ان بچوں کی یہ سب سے بڑی تخلیق ہوا کرتی ہے جو یہ اپنے ہاتھوں سے انجام دیتے ہیں ان معصوم بچوں کے ہاتھ کتنے بھی سردی سے سکڑ جائیں پر یہ اپنے کھیل پر اس کے سبب اپنا کھیل کھیلنے سے باز نہیں آتے بلکہ ہاتھوں کو کبھی منہ کی پھونک سے تو کبھی اپنے فرن سے رگڑ کر گرم کرتے رہتے ہیں کبھی تو یہ معصوم بچے اسی برف باری سے لطف اندوز ہوتے ہوئے چھوٹے چھوٹے سے کمرے بنا دیتے ہیں اور پوری طرح اس کمرے کو سجا دیتے ہیں اس کھیل میں لڑکے اور لڑکیاں برابر کی ماہر ہوتی ہیں کبھی کبھار کچھ بڑے نوجوان بھی آپس میں اس برف باری سے لطف اندوز ہونے کے لئے برف کے چھوٹے چھوٹے گولے بنا کر ایک دوسرے پر پھینک دیتے ہیں اور خوب ہلہ گلہ کرتے ہیں بڑے بوڑھے بھی اس نظارے کو دیکھ کر آہین بھرتے ہیں بچپن کے دنوں کو یاد کر کرکے
گلمرگ ہو کہ کوئی اور سیاحتی مقام سیاح برف باری سے لطف اندوز ہونے کے لئے اکثر ان جگہوں کا رخ کرتے ہیں جہاں وہ بھی اپنے انداز سے اس برف باری میں کھیل کا حظ اٹھاتے ہیں عجب سماں ہوتا ہے عجب نظارے ہوتے ہیں آج جوں ہی میں گھر سے نکلا برف باری ہورہی تھی تو دیکھا کہ برف مچل مچل کر زمیں کو چھو رہی ہے پر ہماری مصیبت اس وقت دو بالا ہوجاتی ہے جب انتظامیہ یہاں کی عوام کو بے یار و مدد گار چھوڑ دیتی ہے اکثر ایسا ہوجاتا ہے کہ نیشنل ہائے وے پر تو انتظامیہ متحرک جلد ہوجاتی ہے پر نیشنل ہائے وے تک آتے آتے کس قدر مشکلات لوگ سہتے ہیں وہ وہی لوگ جانتے ہیں جو دور دراز علاقوں کے مکین ہوا کرتے ہیں جہاں گر کوئی بیچارہ بیمار ہوجائے تو اکثر لوگ اپنی مدد آپ کے تحت اس بیمار کو اپنے کاندھوں پر اٹھا کر اسپتال لے جانے کی کوشش میں مصروف ہوجاتے ہیں گر کوئی خاتون درد زہ میں مبتلاء ہو تو اسے اسپتال لے جاتے ہوئے کئی بار ایسا بھی ہوا کہ خاتون نے اسپتال پہنچنے سے پہلے ہی برف کے اوپر ہی بچے کو یا تو جنم دیا یا اپنی اور اپنے آنے والے بچے سے ہی ہاتھ دھو بیٹھی اس برف باری کی ایک سزا یہ بھی ہوتی ہے کہ گراں بازی پہاڑی علاقوں میں آسمان کو چھوتی ہے یا پھر قلت سرمایہ کے سبب ان غریب اور لا چار لوگوں کو بھوکا رہنا پڑھتا ہے کیونکہ ان کی رسائی اناج کے حصول تک ناممکن ہوتی ہے گرچہ اخبار و رسائل میں انتظامیہ کی طرف سے اکثر ایسی خبریں بھی آتی رہتی ہیں کہ ہم نے ضروریات زندگی کی اشیاء کو فلاں فلاں جگہ پر بڑے بڑے ذخیرے کردیے ہیں پر وہ لوگ کیا کریں جو دن کو کما کر رات کو کھانے کے سوا کچھ بھی کر نہیں سکتے اب اس زاویہ سے دیکھا جائے تو کشمیر کی اکثریت انہی مزدور پیشہ افراد کی ہے جن کا اس کے سوا کوئی اور کمائی کا ذریعہ ہے ہی نہیں کیا انتظامیہ کبھی اس جانب متوجہ ہوجائے گئی کہ کم از کم ان مزدور پیشہ افراد کے لئے سرما کے ان ایام میں کوئی مدد کی جائے تاکہ وہ اپنے ان ایام میں کسی مصیبت کے شکار نہ ہوجائیں اسی طرح یہاں موسم سرما کے دوران دو ماہ ایسے آتے ہیں جب پانی اور انسان کی ملاقات کرنا خود ایک کمال ہوتا ہے مطلب پانی چلنے سے زیادہ رکنا پسند کرتا ہے سمجھے نا مطلب یہ جم جاتا ہے اس پانی کو منہ میں رکھنا یا اس سے ہاتھ منہ دھونا ایسا ہی ہے کہ کوئی انسان اپنی جان کا دشمن ہو اور کہئے مجھے میرے ہاتھ نہیں چاہئے اب اس موسم میں لوگ اکثر گرم پانی کا ہی استعمال کرتے ہیں جس کے لئے گر بجلی ہوتی تو ایک بہترین ذریعہ بن جاتا اس ٹھنڈے پانی سے نجات کے لئے پر ہمارے ہاں ہماری پیاری بجلی جو اکثر یہاں کے درختوں کے بوسے لیتے ہوئے مختلف درختوں ہر زبردستی خود کو سوار کر لیتی ہے غائب رہنا ہی پسند کرتی ہے کہنے والے کہتے ہیں کہ یہ بیچاری بجلی بھی کیسے کیسے ان ننگی الیکٹرک ورز کے سہارے ہمارے گھروں تک تشریف لائے گی ممکن ہے یہ بھی موسم سرما مطلب چلہ کلاں کی مار برداشت نہ کرتے ہوئے اپنے آشیانہ میں ہی قیام کرنا پسند کرتی ہو تاکہ اس موسم میں کہیں پھنس کر جم نہ جائے اور پھر خود ہی خود کا گلا گھونٹ دے خیر اس بیچاری کا قصور بھی زیادہ نہیں کیونکہ جہاں لوگوں کی اکثریت اپنے ماہنانہ بل ادا کرنے کے لئے صبح ہی صبح بینک جاکر بل کی رقم ادا کر دیتے ہیں وہیں کچھ ارباب اقتدار سے لے کر گاؤں کے وہ سیانے باشندے ہزاروں نہیں لاکھوں کی رقم والی بل کی قدر و قیمت سے لاپرواہ ہوکر اپنی دانشمندی کا اظہار کرتے ہیں پر اس سب کا خمیازہ بیچارے غریب عوام کو سہنا پڑتا ہے جب بجلی ملازمین بجلی کے کھبوں اور بجلی کی ترسیلی لائن نئے سرے سے لگانے سے یہ کہہ کر انکار کر دیتے ہیں کہ رقم نہیں ہے
اوہ بات ہورہی تھی برف باری کی چلئے صاحب پھر سے یہی بات چھیڑ دیتے ہیں کہ برف باری ہماری وادی کا سرمایہ افتخار ہے پر غریب کے لئے نوید مصیبت و اذیت
امسال بھی ۴ جنوری سے برف باری ہماری وادی میں شروع ہوئی اور کہسار سے لے کر کھیت کیھلیاں سفید چادر میں لپٹ گئے ہر طرف ہر جگہ صرف اسی سفید برف کی حکمرانی ہے اسی کی دلکشی و خوبصورتی ہے اور اس کا گرنا جاری و ساری ہے یہ برف باری کا نظارہ تب بھی قابل دید ہوتا ہے جب چھوٹی چھوٹی گاڑیاں اپنی پوری قوت لگا کر بھی اس سے ہار جاتی ہیں اور ایک گھنٹے کا سفر اس برف کے سنگ تین چار گھنٹوں تک پہنچ جاتا ہے ہم خوش ہیں کہ امسال برف باری شروع ہوئی پر اللہ کرے یہ برف باری کسی مصیبت کی نوید نہ ہو بلکہ اس سے صرف ہمارا فائدہ ہو فائدہ مطلب یہی کہ زراعت و باغبانی کا فائدہ اب رہا وہ کھیل کود کا زمانہ جو ہمارے کلچر کا ایک حصہ تھا اسے نفرتوں نے اپنے دامن نفرت کے سایہ میں کہیں غائب ہی کردیا اب بچے کھیل کم اور خوف زدہ زیادہ ہوتے ہیں جیسے کہ پچھلے ایام سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ کشمیر اپنی تہذیب و ثقافت کے حوالے سے بہت پیچھے کی طرف دوڑ لگائے ہوئے ہے اور اہل کشمیر خاموشی سے تماشہ دیکھ رہے ہیں تو صاحب چلئے برف باری کا لطف اٹھائیں نہ کہ غم کی دنیا میں جاکر غمگین ہوا جائے