
از : ریحان بیگ ندوی
امریکی صدر جمی کارٹر، (جو حال ہی میں 100 سال کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوئے) اپنی صدارت کے دور میں کیے گئے چند اہم خارجہ پالیسی کے فیصلوں کی وجہ سے امریکی صدارتی تاریخ میں ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ ان کے فیصلوں کو نہ صرف ان کے وژن اور انسانی حقوق کے لیے ان کی کوششوں کی علامت سمجھا جاتا ہے، بلکہ ان پر تنقید بھی کی گئی، خاص طور پر ان کے دور رس اثرات کی وجہ سے۔ ان کی پالیسیوں نے جہاں کچھ اہم کامیابیاں حاصل کیں، وہیں ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والے تنازعات نے امریکہ کے عالمی کردار پر مزید سوالیہ نشان کھڑے کئے۔ ذیل میں ان کے دور صدارت کے تین اہم خارجہ پالیسی کے فیصلے مختصراً پیش کئے جارہے ہیں:1-
*کیمپ ڈیوڈ معاہدے: عرب دنیا کی تقسیم یا مشرقِ وسطیٰ میں امن کی کوشش؟*
کیمپ ڈیوڈ معاہدے Camp David Accords جمی کارٹر کی صدارت کے دوران ایک بڑی سفارتی کامیابی کے طور پر دیکھے جاتے ہیں۔ انہوں نے اسرائیل اور مصر کے درمیان امن معاہدہ کروایا، جس کے تحت اسرائیل نے “سینا” مصر کو واپس کیا اور اس کے نتیجے میں مصر پہلا عرب ملک بنا جس نے اسرائیل کو تسلیم کیا۔لیکن فلسطینی مسئلے پر کیے گئے وعدے عملی طور پر پورے نہ ہو سکے۔ فلسطینی خودمختاری کی ضمانت محض کاغذی ثابت ہوئی، اور اسرائیل نے اپنے قبضے کو مزید مضبوط کیا۔ اس معاہدے نے جہاں مصر کو اسرائیل کے ساتھ امن قائم کرنے میں مدد دی، وہیں عرب دنیا میں مصر کو تنہائی کا شکار کر دیا۔یہ معاہدے اگرچہ وقتی طور پر ایک اہم پیش رفت تھے، لیکن ان کے طویل المدتی اثرات نے فلسطینی کاز کو نقصان پہنچایا۔ کارٹر نے اپنی صدارت کے بعد بھی فلسطینی حقوق کے لیے آواز اٹھائی، لیکن ان کی کوششوں کو کبھی وہ کامیابی نہ
مل سکی جس کی وہ خواہش رکھتے تھے2-
*افغانستان میں مداخلت: سرد جنگ کی فتح یا علاقائی عدم استحکام کی بنیاد؟*
کارٹر نے افغانستان میں سوویت مداخلت کو ایک موقع کے طور پر دیکھا اور افغان مجاہدین کو امریکی حمایت فراہم کرنے کا فیصلہ کیا۔ پاکستان اور سعودی عرب کے ذریعے افغان جنگجوؤں کو ہتھیار، مالی امداد، اور تربیت فراہم کی گئی۔ اس پالیسی نے سوویت یونین کو ایک طویل اور مہنگی جنگ میں الجھا دیا، جو بالآخر اس کے زوال کا سبب بنی۔کارٹر کی پالیسی نے سوویت یونین کے خلاف مزاحمت کو مضبوط کیا، لیکن اس کے نتیجے میں طالبان جیسی قوتوں کو بھی ابھرنے کا موقع ملا۔
طالبان نے افغانستان میں بیرونی تسلط کے خلاف نہ صرف مؤثر مزاحمت کی بلکہ ایک مضبوط علاقائی قوت کے طور پر سامنے آئے۔ تاہم، جب طالبان نے اپنی طاقت مستحکم کرنے پر توجہ کی اور امریکی مفادات کے لیے خطرہ بنے، تو امریکہ نے انہیں کمزور کرنے کی مہم شروع کی۔یہ امریکہ کی دہری پالیسی کو بے نقاب کرتا ہے کہ جب کوئی گروہ اس کے مفادات کے لیے کام کرے تو وہ اس کی حمایت اور مدد کرتا ہے، لیکن جب وہی گروہ اپنی خودمختاری یا طاقت کے لیے کھڑا ہو جائے اور امریکی مفادات کے خلاف ثابت ہو، تو وہی امریکہ اسے اپنے لیے خطرہ سمجھنے لگتا ہے۔ یہ رویہ امریکی مداخلت کی غیر مستقل مزاجی اور مفاد پرستی کی عکاسی کرتا ہے۔بہر کیف کارٹر کی اس پالیسی کو سرد جنگ میں امریکہ کی ایک بڑی کامیابی کہا جا سکتا ہے، لیکن اس کی وجہ سے جو عدم استحکام پیدا ہوا، اس نے خطے میں امریکی مداخلت پر سوالیہ نشان لگا دیا۔3-
*چین کے ساتھ تعلقات کی بحالی: تائیوان کی قربانی کے ساتھ ایک بڑی پیش رفت*
جمی کارٹر نے صدر نکسن کے دور میں شروع ہونے والے چین کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے عمل کو پایۂ تکمیل تک پہونچایا۔ انہوں نے “ایک چین” One China policy پالیسی کو تسلیم کرتے ہوئے چین کے ساتھ مکمل سفارتی تعلقات قائم کیے، جس کے نتیجے میں تائیوان کے ساتھ امریکی فوجی اور سفارتی تعلقات کمزور ہوئے۔یہ قدم جہاں عالمی سطح پر چین اور امریکہ کے درمیان تعلقات کو نئی جہت دینے میں کامیاب رہا، وہیں تائیوان کی خودمختاری کے تحفظ پر سنگین سوالات اٹھے۔ امریکہ نے اگرچہ دفاعی اور تجارتی تعلقات برقرار رکھنے کی یقین دہانی کرائی، لیکن اس فیصلے نے خطے میں امریکہ کے اتحادیوں میں بے اعتمادی پیدا کی۔یہ پالیسی امریکی مفادات کے لیے کامیاب رہی، لیکن کئی ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کے سامنے امریکہ کی کمزوری کی علامت تھی۔ بعد کی دہائیوں میں چین کی فوجی اور اقتصادی ترقی نے اس تعلق کو مزید پیچیدہ بنا دیا، لیکن 13 دسمبر 2024 کو امریکہ اور چین نے سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں پانچ سال کے لیے 1979 والے معاہدے کی تجدید کی ہے۔ ماہرین اس اقدام کے پیچھے چین کی سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں تیز رفتار ترقی کو وجہ بتا رہے ہیں۔
*ایک متوازن جائزہ*
صدر جمی کارٹر کا دورِ صدارت (1977- 1981) امریکی تاریخ میں ایک اہم سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے، جس میں ان کے فیصلوں نے نہ صرف اس وقت کی عالمی سیاست کو نئی جہت دی بلکہ آنے والے ادوار میں بھی امریکی خارجہ پالیسی کے خدوخال متعین کیے۔ جمی کارٹر کے مذکورہ تین اہم فیصلے امریکی خارجہ پالیسی کی تاریخ میں ایک اہم موڑ تھے، لیکن ان کے اثرات متنازع رہے۔ چین کے ساتھ تعلقات نے دنیا کی سب سے بڑی معیشتوں کے درمیان تعلقات کو بہتر بنایا، لیکن تائیوان کی خودمختاری کو خطرے میں ڈال دیا۔ افغانستان میں مداخلت نے سوویت یونین کو شکست دی، لیکن علاقائی عدم استحکام اور افغانستان کی تباہی کا یہ ذریعہ بھی بنا۔ کیمپ ڈیوڈ معاہدے نے اسرائیل اور مصر کے درمیان امن قائم کیا، لیکن فلسطینی حقوق یکسر نظرانداز رہے۔ کارٹر کی پالیسیوں کو نہ مکمل طور پر سراہا جا سکتا ہے اور نہ ہی مکمل طور پر مسترد کیا جا سکتا ہے۔ ان کے فیصلے اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ کس طرح عالمی طاقتیں اپنے مفادات کے لیے وقتی امن اور استحکام کی قربانی دے سکتی ہیں۔ ان کی پالیسیاں نہ صرف ان کے دور کی ضرورتوں کو پورا کرتی تھیں، بلکہ آنے والے دہائیوں میں بھی امریکی خارجہ پالیسی کی سمت کا تعین کرتی رہیں۔