
از : قاضی محمد حسن ندوی
استاذ :حدیث و فقہ دار العلوم ماٹلی والا بھروچ
سال رواں کی طرح اس سال بھی ضلع کی سطح پر تبلیغی اجتماع پورے آن بان اور شان کے ساتھ مذکورہ بالا مقام پر 16/17/18 جنوری کو منعقد ہوا،ہزاروں مسلمانوں اور دین اسلام کے پروانوں نے وہاں جاکر بیانات سے اپنے قلب وروح کو مہمیز لگا کر تسکین پہنچانے کی کوشش کی،اور ایمان کو تازگی بخشی ،جب بارہ جنوری کو دار العلوم ماٹلی والا کی تقریب ختمِ بخاری کے موقع پر اس کا اعلان ہوا کہ یہاں تین روزہ تبلیغی اجتماع منعقد ہوگا،تو راقم سیاہ کار کے دل میں وہاں جانے کا داعیہ پیدا ہوا کہ کیوں نہ وہاں جاکر فیض حاصل کیا جائے،اگر پورے تین دن نہیں تو کم از کم ایک نشست میں حاضر ہو کر ضرور فائیدہ اٹھایا جائے ،اورانگلی میں خون لگا کر شہیدوں میں نام لکھا لیا جائے نیزاکابرین کے ملفوظات سے اور بزرگوں کی صحبتوں سے استفادہ کیا جائے ،اور دلوں کو آلودگی سے مزکی اور منور کیا جائے ، تسلی دل کو ہوتی ہے خدا کو یاد کرنے سے
کیوں کہ تذکیر الٰہی ہی سے نہ صرف دل کو غذا ملتی ہے بلکہ تسکین اور حلاوت بھی حاصل ہوتی ہے ،ارشاد ربانی ہے ( آلا بذکر اللہ تطمئن القلوب)سنو !دلوں کو اطمینان ذکر اللّٰہ ہی سے حاصل ہوتا ہے) چنانچہ وہ دن آہی گیا ،جس کا شدت سے انتظار تھا ،کل جمعہ سے قبل میرے چھوٹے فرزند حافظ احسن نے کہا میں بھی جائوں گا ، اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے توفیق ملی ،بعد نماز جمعہ رکشہ کے ذریعہ منزل کی طرف روانہ ہو ا ،تقریبا سارھ تین بجے اجتماع گاہ میں بعافیت حاضری کی سعادت حاصل ہوئی ،کسی ذمہ دار کا بیان چل رہا تھا ،جگہ لیکر جلد ہی ہم چار آدمی اجتماع گاہ میں موقع غنیمت جان کر بیٹھ گئے ،پوری توجہ کے ساتھ باتیں سننے کی کوشش کی ،عصر سے قبل اور بعد نماز مغرب بہت ہی زریں باتیں سننے کا موقع ملا ،افادہ عام دوسروں تک پہنچانے کی خاطر یہاں علماء کے بیانات کا خلاصہ ذیل میں پیش کرنے کی ناقص کوشش کی گئی ہے ،تاکہ تفقہ فی الدین کے ساتھ ساتھ ( ولینذروا قومھم اذا رجعوا،پر عمل ہوجائے،کسی نے بجا فرمایا ہے
یک زمانہ صحبت با اولیا
بہتر از صد سالہ طاعت بے ریا
1۔۔ بہر حال اس موقع پر ایک بات یہ عرض کی گئی کہ اللّٰہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت زندگی ہے ،اس کا تقاضا یہ ہے کہ اس کا کچھ حصہ اپنی اور انسانی بھائیوں کی مدد ونصرت اور خیرخواہی میں صرف کی جائے،اس لئے کہ ہر شخص دن رات چوبیس گھنٹوں میں سے صرف ڈھائی گھنٹے دعوت وتبلیغ میں لگائے ،اس میں اپنے محلہ کی مسجد کے ہفتہ واری گشت میں دلچسپی سے حصہ لے ،اسی طرح دوسرے محلہ کے اس کام میں بھی ،نیز دن ورات میں کس ایک وقت میں اپنے گھر میں اپنی بیوی بچوں کے ساتھ قرآن وحدیث اور دین کی باتوں کا آپس میں مذاکرہ کرے،اس سے بڑے فائدے حاصل ہوں گے ،(اذا تکرر تقرر)کے تحت تذکیر سے اعمال کو بجا لانے کا جذبہ موجزن ہوتا رہےگا
2۔ دوسری بات یہ پیش کی گئی کہ عام مسلمان مہینے میں تین دن دین سیکھنے کے لئے دوسرے گاؤں کا سفر کریں ،حرکت میں برکت ہوتی ہے ،حضرت مولانا ابراہیم صاحب دیولہ مدظلہ العالی نے کہا چلت پھرت ہجرت کے مشابہ ہے ،اس کا سب سے زیادہ فائدہ یہ حاصل ہوتا ہے کہ دین سیکھنے اور عبادت کرنے میں یکسوئی حاصل ہوتی ہے ،ظاہر ہےکہ ہر مسلمان نہ مدرسہ میں عالم اور مفتی ہوتا ہے اور نہ مسائل کو سیکھنے کی کوشش کرتا ہے ،حالاں کہ ضرورت کے مطابق دین سیکھنا فرض ہے ،اس کے بغیر حکم الٰہی اور عبادت کی ادائیگی مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے ،اس لئے مہینے میں تین دن ،سال میں ایک چلہ ،یا سال لگا کر بقدر ضرورت دینی تعلیم حاصل کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے ،تاکہ اللہ کا حکم اور عبادت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق ادا کی جاسکے
3۔ اسی طرح بعد نماز مغرب حضرت مولانا ابراہیم صاحب دیولہ نے بڑی قیمتی باتیں فرمائی ،حضرت نے قرآن مجید کی آیت ( ومن کل شیء خلقنا زوجین لعلکم تذکرون) کو اپنا موضوع سخن بنایا ،اس کے تحت حضرت نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں دوچیزوں کی طرف اشارہ کیا ہے ،ایک یہ ہے کہ تمام مخلوقات میں اللّٰہ تعالیٰ نے جوڑا نر اور مادہ بنایا ہے ،دوسری بات یہ کہ دوچیزوں میں سے ایک چیز کو انسان جب اختیار کرتا ہے تو دوسری چیز سے وہ یکا یک بے تعلق ہو جاتا ہے ،یعنی انسان دنیا میں مثبت اعمال کو بجا لاتا ہے تو منفی اعمال سے اس کو نجات مل جاتی ہے ،تلاوت ذکرِ الٰہی میں مشغول ہو تا ہے تو وہ غافل کر نے والے پروگرام سے چھٹکارا پالیتا ہے ،لھذا اگروہ عبادت الٰہی میں اپنی زندگی کو صرف کرتا ہے تو معصیت الٰہی سے خلاصی مل جاتی ہے ،جس طرح رات جاتی ہے تو دن آتا ہے ،نور روشنی آتی ہے تو کفر وتاریکی کا بادل چھٹ جا تا ہے ، اس کی زندگی میں غفلت نہیں آتی ،نہ ہی وہ شیطان کے جھانسے میں آپاتا ہے اور نہ اس سے کوئی معصیت سرزد ہو تی،اگرسرزدبھی ہوتی ہے ،تو فورا توبہ کی توفیق ملتی ہے ،،لیکن جب انسان غافل ہوتا ہے ،غلط صحبت اختیار کرتا ہے،توعبادت کے ساتھ ساتھ دنیا ہی میں بہت سی نعمتوں سے محروم ہو جاتا ہے ، اس لئے مولانا نے کہا کہ ہمیں چاہیے کہ ہم اللّٰہ تعالیٰ کے مثبت احکام وفرائض کو بجا لانے میں برج چڑھ کر حصہ لیں ،اور منفی اعمال سے بچنے کی حتی المقدور کوشش کرتے رہیں ،اس سے سب سے بڑا فائد ہ یہ حاصل ہوگا کہ ہماری زندگی مقصد حیات کی تحصیل و بازیابی میں سنت کے مطابق گزرے گی ،موت ایمان اور کلمہ پر آئے گی ،مرنے کے بعد کی منزل آسان ہوگی ،پھر قیامت کے دن ہم پر اللّٰہ تعالیٰ کا سایہ فگن ہوگا ،حساب وکتاب میں آسانی ہو گی ،دائیں ہاتھ میں نامہ اعمال ملے گا ،جنت میں بجلی کی طرح داخلہ نصیب ہوگا گے ،پھر ہماری آخری تمنا پوری ہو گی ،یعنی جنت میں دیدارِ الٰہی نصیب ہوگی، ،دعا ہے آللہ پاک ہمیں مذکورہ بالا ملفوظات پر عمل کرنے کی توفیق دے آمین
4۔ وہاں آمد و رفت کے وقت ایک عجیب وغریب منظر دیکھنے کا موقع ہاتھ آیا ،اجتماع گاہ سے قبل جگہ جگہ پر بہت سے بوڑھے مسلمان ٹریفک کی ذمہ داری کو انجام دے رہے تھے ،اور اماطۃ الاذی عن الطریق) کے فریضے کو برتنے کی ترغیب دی رہے تھے ،گاڑی اپنی اپنی جگہ پر رکھی جا رہی تھی تاکہ کسی کو کسی سے تکلیف نہ پہنچے
5۔ اس موقع پر بہت سے تلامذہ اور احباب سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا ،ان سے سلام وکلام ہوا ،اور ان کی علمی سرگرمیوں کو سن کر بڑی فرحت و شادمانی حاصل ہوئی ،اخیر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بابرکت مجلس میں حاضری کو قبول فرمائے اور زریں اور مفید ارشادات پر عمل کی توفیق دے آمین محمد حسن ندوی مدھوبنی