(Organ Transplantation)
از : ڈاکٹر مفتی محمد شاہ جہاں ندوی
اعضاء کی پیوندکاری کے شرعی احکام واضح فرمادیں
-الجواب-و باللہ تعالیٰ التوفیق-:
اللہ تعالیٰ نے انسان کو مکرم و معزز اور محترم بنایا ہے- ارشاد باری تعالٰی ہے: (و لقد كرمنا بني آدم، وحملناهم في البر و البحر و رزقناهم من الطيبات و فضلناهم على كثير ممن خلقنا تفضيلا). (17/ اسراء:7)- ( ہم نے انسان کو مکرم و معزز بنایا ہے، اور ہم نے ان کو خشکی اور تری میں سفر کے مواقع فراہم کیے، اور ان کو پاکیزہ روزی دی اور اپنی بہت سی مخلوقات پر ان کو فضیلت بخشی ہے)-
یہ انسانی تکریم زندگی اور موت ہر حال میں برقرار رہنی چاہیے- اس کے ساتھ کوئی ایسا تصرف نہیں ہونا چاہیے جو انسانی اعزاز کے خلاف ہو- اس کے ساتھ غلط تصرف ہر حال میں موجب گناہ ہے- ایک حدیث میں اس کی صراحت ہے- حضرت عائشہ صدیقہ -رضی اللہ تعالیٰ عنہا- سے روایت ہے کہ رسول اکرم – صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم وعلی آلہ وصحبہ اجمعین وسلم- نے ارشاد فرمایا: “كسر عظم الميت ككسره حيا”. (سنن ابی داود، کتاب الجنائز، باب في الحفار يجد العظم هل يتنكب ذلك المكان؟، حدیث نمبر 3207، سنن ابن ماجہ، کتاب الجنائز، باب النهي عن كسر عظام الميت، حدیث نمبر 1616، صحیح ابن حبان- بترتیب ابن بلبان، حدیث نمبر 3167، مسند احمد، حدیث نمبر 24739، اور یہ صحیح درجہ کی حدیث ہے)- ( مردہ کی ہڈی کو توڑنا ایسا ہی ہے جیسے زندگی میں اس کی ہڈی کو توڑنا)-
فقہاء نے بھی اس بات کی صراحت کی ہے کہ انسان کی اہانت کسی حال میں جائز نہیں ہے، اور وہ اپنے تمام اجزاء کے ساتھ معزز و مکرم ہے- “البدائع” میں ہے: “والآدمي بجميع أجزائه مكرم”. ( کاسانی، بدائع الصنائع، کتاب البیوع 5/133، بیروت، دار الکتاب العربی، 1982ء، ع.أ.:7)-
دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ بسا اوقات علاج کی ایسی ضرورت پیش آجاتی ہے کہ کوئی حلال متبادل (alternate) موجود نہیں ہوتا ہے- انسان کی جان بچانے کی صرف ایک ہی صورت ہوتی ہے کہ حرام و نجس چیز کا استعمال دوا کے طور پر کیا جائے- مفتی بہ قول کے مطابق علاج کی ضرورت کے پیش نظر اس کی گنجائش ہے- اس حالت میں اس کی حرمت ساقط ہوجاتی ہے- درج ذیل فقہی اقتباسات سے اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے:1
– “تبیین الحقائق” میں ہے: ” يجوز التداوي بالمحرم كالخمر و البول إذا أخبره طبيب مسلم أن فيه شفاء، ولم يجد غيره من المباح ما يقوم مقامه. والحرمة ترتفع للضرورة، فلم يكن متداويا بالحرام، فلم يتناوله حديث ابن مسعود. و يحتمل أنه قاله في داء عرف له دواء غير المحرم”. (زیلعی، تبیین الحقائق، کتاب الکراھیہ، فصل فی البیع 6/33، قاہرہ، دار الکتاب الاسلامی، ع.أ.:6)-2
– البحر الرائق میں ہے:”هذا، و قد وقع الاختلاف بين مشايخنا في التداوي بالمحرم. ففي النهاية عن الذخيرة: “الاستشفاء بالحرام يجوز إذا علم أن فيه شفاء ولم يعلم دواء آخر اه. و في فتاوى قاضي خان معزيا إلى نصر بن سلام معنى قوله – عليه السلام- إن الله لم يجعل شفاءكم فيما حرم عليكم”. إنما قال ذلك في الأشياء التي لا يكون فيها شفاء. فأما إذا كان فيها شفاء فلا بأس به. ألا ترى أن العطشان يحل له شرب الخمر للضرورة….وهذا لأن الحرمة ساقطة عند الاستشفاء”. (ابن نجیم، البحر الرائق، کتاب الطھارۃ 1/122، بیروت، دار المعرفہ)-3
– “رد المحتار” میں ہے: “حيث قال: فرع: اختلف في التداوي بالمحرم، و ظاهر المذهب المنع، كما في إرضاع البحر، لكن نقل المصنف ثمة، و هنا عن الحاوي: و قيل: يرخص إذا علم فيه الشفاء، ولم يعلم دواء آخر، كما رخص الخمر للعطشان، و عليه الفتوى، اه”. (ابن عابدين، رد المحتار، كتاب النكاح، باب الرضاع 3/211، بيروت، دار الفكر، 1421ھ/2000ء، ع.أ.:8).
4- “ہندیہ” میں ہے: “أدخل المرارة في أصبعه للتداوي. قال أبو حنيفة -رحمه الله تعالى-: لا يجوز. و عند أبي يوسف -رحمه الله تعالى- يجوز، و عليه الفتوى، كذا في الخلاصة”. (ہندیہ، کتاب الکراھیہ، الباب التاسع عشر في الختان والخصاء و قلم الأظفار 5/356، بيروت، دار الفکر، 1412ھ/1991ء، ع.أ.:6)-5
– “رد المحتار” میں مزید وضاحت مذکور ہے: “لو أدخل في أصبعه مرارة مأكول اللحم يكره عنده؛ لأنه لا يبيح التداوي ببوله، لا عند أبي يوسف؛ لأنه يبيحه. و في الذخيرة والخانية أن الفقيه أبا الليث أخذ بالثاني للحاجة. و في الخلاصة: و عليه الفتوى. قلت: و قياس قول محمد: لا يكره مطلقا لطهارة بوله عنده”. (ابن عابدين، رد المحتار، كتاب الطهارة، مطلب في الفرق بين الاستبراء و الاستنقاء 1/210، بيروت، دار الفكر، 1421ھ/2000ء، ع.أ.:8)-
قدیم فقہاء کی آراء
اگرچہ قدیم فقہاء نے صراحت کی ہے کہ دوسرے انسان کے اجزاء کا استعمال اس کی توہین ہے- علامہ کاسانی – رحمۃ اللّٰہ تعالیٰ علیہ- تحریر فرماتے ہیں: ” ولو سقط سنه يكره أن يأخذ سن ميت فيشدها مكان الأولى بالإجماع… و قال أبو يوسف -رحمه الله- لا بأس بسنه و يكره سن غيره….و إعادة جزء منفصل إلى مكانه ليلتئم جائز، كما إذا قطع شيء من عضوه فأعاده إلى مكانه. فأما سن غيره فلا يحتمل ذلك. والثاني أن استعمال جزء منفصل عن غيره من بني آدم إهانة بذلك الغير، والآدمي بجميع أجزائه مكرم. ولا إهانة في استعمال جزء نفسه في الإعادة إلى مكانه”. ( کاسانی، بدائع الصنائع، کتاب البیوع 5/133، بیروت، دار الکتاب العربی، 1982ء، ع.أ.:7)-
لیکن موجودہ دور میں عطیہ کردہ عضو کی جس مہذب طریقہ سے پیوندکاری کی جاتی ہے، اسے اہانت نہیں قرار دیا جاسکتا ہے
-لہذا درج ذیل شرائط کے ساتھ صرف ایسے عضو کا عطیہ کیا جا سکتا ہے کہ عطیہ کرنے والے کو کوئی معتد بہ ضرر لاحق نہ ہو
:1- صرف ایسے عضو کا عطیہ کیا جائے، جس پر انسانی زندگی موقوف نہ ہو- لہٰذا دل وغیرہ کا عطیہ جائز نہیں ہے-2- ایک گردہ کے عطیہ سے عطیہ کنندہ کی زندگی کو کوئی معتد بہ ضرر لاحق نہ ہو، تو وہ مریض کی جان بچانے کے لیے اپنا ایک گردہ عطیہ کر سکتا ہے-3- جو عضو اپنی تلافی کرلے، اور عطیہ دینے والے کو قابل لحاظ ضرر نہ ہو، جیسے: جگر کی خاص مقدار، کھال اور خون وغیرہ، اس کا عطیہ کیا جا سکتا ہے-4- جس عضو کی وجہ سے انسان بد نما اور بد صورت ہو جائے، اس کا عطیہ کرنا جائز نہیں ہے- لہٰذا، ہاتھ، پیر اور آنکھ وغیرہ کا عطیہ کرنا جائز نہیں ہے-5- عضو کی پیوندکاری کے علاوہ کوئی متبادل نہ ہو-6- معتبر ڈاکٹروں کی ٹیم کو ظن غالب ہو کہ عطیہ کرنے والے کو عطیہ کرنے کی صورت میں کوئی معتد بہ ضرر لاحق نہیں ہوگا-7- معتبر ڈاکٹروں کی ٹیم کو ظن غالب ہو کہ اس عضو کی پیوندکاری سے مریض کی جان بچ سکتی ہے-8- نطفہ (sperm) اوررحم کا عطیہ کرنا حرام ہے-9- اپنے ہی جسم کے ایک حصہ کو دوسرے حصے کی طرف منتقل کرنا جائز ہے-10- اسلامی نقطہء نظر سے مردہ بھی معزز و مکرم ہے- لہٰذا اس کے جسم کے کسی حصہ کو عطیہ کرنا جائز نہیں ہے-11- تعلیم کی غرض سے پلاسٹک سے بنائے گئے انسان، یا بن مانس وغیرہ کا استعمال کیا جائے- اس مقصد کے لیے اپنے مردہ جسم کو عطیہ کرنا جائز نہیں ہے-12- انسانی اعضاء کی خرید وفروخت سخت حرام ہے، لہٰذا کسی عضو کو خرید وفروخت کا محل نہ بنایا جائے- “البدائع” میں ہے:” الآدمي لم يجعل محلا للبيع”. (کاسانی، بدائع الصنائع، کتاب البیوع، فصل: شرائط المعقود عليه 5/145، بیروت، دار الکتاب العربی، 1982ء،ع.أ.:7)-13- خون اگر بہ طور عطیہ نہ ملے، تو بہ حالت مجبوری خریدنے کی گنجائش ہے- اسے فروخت کرنا جائز نہیں ہے-اکیڈمی کا فیصلہ:اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کی تجویز ہے:اگر کوئی مریض ایسی حالت میں پہنچ جائے کہ اس کا کوئی عضو اس طرح بے کار ہو کر رہ گیا ہے کہ اگر اس عضو کی جگہ کسی دوسرے انسان کا عضو اس کے جسم میں پیوند نہ کیا جائے تو قوی خطرہ ہے کہ اس کی جان چلی جائے گی، اور سوائے انسانی عضو کے کوئی دوسرا متبادل اس کمی کو پورا نہیں کر سکتا، اور ماہر قابل اعتماد اطباء کو یقین ہے کہ سوائے عضو انسانی کی پیوندکاری کے کوئی راستہ اس کی جان بچانے کا نہیں ہے، اور عضو انسانی کی پیوندکاری کی صورت میں ماہر اطباء کو ظن غالب ہے کہ اس کی جان بچ جائے گی اور متبادل عضو انسانی اس مریض کے لیے فراہم ہے، تو ایسی ضرورت، مجبوری اور بے کسی کے عالم میں عضو انسانی کی پیوندکاری کرا کر اپنی جان بچانے کی تدبیر کرنا مریض کے لیے مباح ہوگا-
انٹرنیشنل فقہ اکیڈمی جدہ کا فیصلہ:ایسا عضو جس پر زندگی کا دار و مدار ہے، جیسے: قلب، اسے کسی زندہ انسان سے دوسرے انسان کے اندر منتقل کرنا حرام ہے-واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب، علمہ اتم و احکم