بلاشبہ اس عالم کون و فساد میں موت و حیات کی سنت مستمرہ ایسی جاری ہے کہ بجز صبر و انقیاد اور تسلیم و رضا کے کوئی چارہ کار نہیں ، جس طرح یہ ایک حقیقت ہے اسی طرح یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بعض حوادث اتنے صبر آزما ہوتے ہیں کہ بڑا حوصلہ مند انسان بھی حوصلہ ہار جاتا ہے ۔ اکتوبر کے دوسرے عشرے میں عارف باللہ حضرت مولانا ممتاز علی صاحب مظاہری رحمۃ اللہ علیہ بانی مدرسہ معھد البنات یعقوبیہ یکہتہ کی بڑی بہو ، مولانا مختار علی صاحب مظاہری کی اہلیہ ، اور مولانا علی اختر صاحب ندوی کی والدہ مرحومہ اچانک بستر علالت میں گئیں ، بیماری نے قدرے طول کھینچا ماہر ڈاکٹروں کے مشورے کے مطابق بڑے ہسپتالوں میں رکھ کر ہر ممکنہ تدابیر اختیار کی گییں، مگر قدرت ان کی زندگی کے منشور پر خاتمہ کی مہر لگاچکی تھی ، اور حکم الٰہی آچکا تھا جس کے سامنے ہرکوئی مجبور ہے ، لہذا وہ ٢٧ نومبر ٢٠٢٤ کو اپنی جان، جان آفریں کے سپرد کرگئ ۔ ( “انا للہ وانا الیہ راجعون”)
کسی مبالغہ کے بغیر پوری دیانت اور کمال ذمہ داری کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ اس پر آشوب دور اور قحط الرجال کے زمانے میں ایسی باخدا خاتون ، رضاء بالقضاء کی تصویر ،نالہ و فریاد کا مرغ سحری اب کہاں ؟
یقین جانیں! مرحومہ کا مرثیہ در حقیقت صبر و شکر کا نوحہ و فریاد ہے ان کی وفات کا صدمہ عبادت و تقویٰ کا رونا ہے ، ان کا ماتم ، حیاء و شرافت کا ماتم ہے ، حق تعالی نے مرحومہ کو وہ فطری کمالات عطاء فرمائے تھے جو اس دور میں بہت کم ہی نظر آتے ہیں ۔ میں نے اپنے دائرہ علم میں ایسا پیکر صبر اور سر سے پیر تک شکر کا مجسمہ کہیں نہیں دیکھا اور نہ سنا۔
حق تعالی نے مرحومہ کو بے شمار کمالات ، مجاہدات و ریاضت کے ساتھ ساتھ قرآن کریم کا عجیب و غریب ذوق عطاء فرمایا تھا جس کا اندازہ آپ اس سے لگا سکتے ہیں کہ مرحومہ محض ماہ رمضان میں تمام تر واجبی و اخلاقی ذمہ داری اور مہمان نوازی کا فریضہ بحسن وخوبی انجام دینے کے ساتھ ، سات آٹھ قرآن ختم کیا کرتی تھیں علاوہ ازیں درمیانی مہینوں میں بھی قرآن کی تلاوت کثرت کے ساتھ کیا کرتی تھیں۔
ہمدردی میں مرحومہ (درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو) کا عملی مظہر تھیں، اور اسلام نے جو بیمار پرسی اور تیمارداری کو گناہوں کی بخشش اور درجات کی بلندی کا ذریعہ بتایا ہے مرحومہ اس کی حقدار تھیں ، اور یہ دونوں وصف اس دور میں جب کہ لوگ غرض کے بندے اور مصلحت کے پجاری ہیں ۔ بھائی بھائی کے ساتھ چال اور بناوٹ سے کام لیتا ہے ، ہرشخص اپنی ذات کو دوسرے کے سود و زیاں پر مقدم رکھتا بلکہ ترجیح دیتا ہے ، ایثار میں بھی اہل دنیا کی کوئی غرض شریک ہوتی ہے ، نام و نمود ، شہرت، تحسین و ستائش ، دوسروں کی زبان سے یہ سننے کی تمنا کہ بھئی! فلاں شخص بڑا فیاض کشادہ دست اور ایثار پسند ہے ایک غیر آدمی کے ساتھ یہ کیا وہ کیا…..لیکن مرحومہ خلوص و للہیت ،صداقت وشفقت کے سوا اور کسی جذبہ و تمنا سے آشنا ہی نہ تھیں۔
ویسے تو مرحومہ کی ہمدردی و تیمارداری سب کے ساتھ تھیں لیکن معھد البنات یعقوبیہ کے جملہ اساتذہ بطور خاص مدرسہ میں مقیم معلمین وطالبات کے تئیں بے انتہا، بے لوث تھیں، سب کی خبر ، خیریت معلوم کرنا ، بچیوں کی نگرانی و نگہبانی ، بیمار بچیوں کی تیمارداری ، مایوسی کے وقت ماں جیسی تسلی، اور خوش کلامی کے ذریعے فرحت قلبی بخشنا مرحومہ کی صفات میں نمایاں صفت تھی۔
لیکن آہ! مرحومہ ان تمام کمالات ومحاسن کو اپنے ساتھ لے کر 27نومبر 2024 کو داعی اجل کی دعوت پر لبیک کہ گئی ،ہمیں خدا کی ذات سے امید ہے کہ کہنے والے نے کہا ہوگا “یٰۤاَیَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَىٕنَّةُ اِرْجِعِیْۤ اِلٰى رَبِّكِ رَاضِيَةࣰ مَّرۡضِيَّةفادۡخُلِي فِي عِبَٰدِي وادخلی جنتی”
جانے والے کبھی نہیں آتے
جانے والوں کی یاد آتی ہے
جب 27 نومبر کی رات تقریباً ساڑھے سات بجے کچھ لوگ انہیں کاندھے لے جارہے تھے تو ارض وطن قدموں سے لپٹ کر کہنے لگی کہ ہم سے دور انہیں کہاں لے جارہے ہیں ، ہمیں برکتوں اور شفقتوں سے کیوں محروم کررہے ہیں ، گلیاں کوچے کہ رہے تھے آپ کے نقش قدم ہمارے سینوں میں محفوظ ہیں آپ جارہے ہیں، ہمیں بھی ساتھ لیتے چلیں، معھد کے بام و در پر افسردگی چھائی ہوئی تھی جیسے کوئی غم خوار اور محسن دوست بچھڑ رہاہو، بڑے سے لے کر چھوٹے تک سب سوگوار تھے ،دل و دماغ پر گھر کے در و دیوار پر وحشت طاری ہوگئی ۔ گویا ایک نور تھا جس کے غروب سے ظلمت چھاگئی۔۔۔
خلاصہ یہ کہ مرحومہ اب اس جہاں میں نہیں رہی مگر ان کی یادوں کی قندیل ہم سب کے دلوں میں سدا ضوفشانی کرتی رہے گی۔
حادثہ ہے یا الہٰی یہ سنگین و خوار
دل پھٹے جاتے ہیں اشک کی لگتی ہے دھار
ایک محسن وقت سے ہوگئے محروم ہم
کرنہیں سکتے بیاں جو ہوا ہے ہم غم
ہیں قیامت ہم پے کتنی اور الم ہیں بے شمار
غمزدہ سارا چمن ہے غمزدہ ہیں برگ وبار
مغفرت کرنا خدایا ان کی بار بار
آمین یارب العالمین بجاہ سید المرسلین
( از : محمد ناصر عالم رحمانی )