ستائیس نومبر 2024) کو میری امی خالق حقیقی سے جا ملیں۔ ڈیڑھ ماہ پہلے سانس کی تکلیف کی وجہ سے اچانک وہ بستر سے لگیں اور پھر اٹھ نہ سکیں۔ شکری، دربھنگہ، پٹنہ ہر جگہ علاج و معالجے کہ تدبیریں اختیار کی گئیں، مگر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کیاور آخر، زندگی و موت کی بے چین کشمکش اور تکلیف کی درد انگیز شدت سے رہا ہوکر وہ آرام کی نیند سو گئیں۔
رہنے کو سدا دہر میں آتا نہیں کوئی
تم جیسے گئے ایسے بھی جاتا نہیں کوئی
امی کی موت میرے لئے ایک جذباتی اور ذہنی صدمہ ہے۔ مرض الموت کے پورے ڈھیر مہینے کے دورانیے میں بیشتر اوقات میں ان کے ساتھ رہا، ان کی تکلیف کو قریب سے دیکھا، ان کے کرب کو قریب سے محسوس کیا، ان کی صبر آزما بے چینی کو دیکھ کر کڑھتا رہا، ان کی آہوں سے دل پھٹتا رہا، ان کے صبر سے کلیجہ چھلنی ہوتا رہا، مگر ان کی تکلیف نہیں بانٹ سکا، ان کا کرب نہیں کم کرسکا، ان کی بے چینی نہیں سمیٹ سکا۔ سب دوائیں بے اثر ہوگئیں، ہر تدبیر ناکام ہوگئی، ہر دعا مشیت ایزدی کے سامنے سے خالی لوٹ ائی اور امی ہمارے سروں سے محبت و شفقت کا سایہ سمیٹ کر رب کے دربار میں حاضر ہوگئیں۔ احساس کا الاؤ ہے جو بھڑکنا چاہتا ہے، جذبات کی شدت ہے جو آتش فشاں بن کر پھٹنا چاہتی ہے، آنسوؤں کا طوفان ہے جو سب کچھ بہا لے جانے پر آمادہ ہے۔ مگر حکم صبر کا ہے، وقت دعا کا ہے۔ سو ہم صبر کے دامن سے آنسوؤں کو خشک کرتے ہیں، اور دعا کے وسیلوں سے جذبات کے آتش فشاں کو سرد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اللهم اغفر لها وارحمها واعف عنها، وأدخلها الجنة وأعذها من النار ، وأبدلها دارا خيرا من دارها وأهلا خيرا من أهلها
درج ذیل چند الفاظ ان کے محاسن کا احاطہ نہیں، بلکہ ایک جھلک ہے۔
*امی صبر و برداشت کا پیکر تھیں*
۔ مرض کی شدت اور تکلیف کی حدت، حد سے گزرنے پر ہی ان کے منہ سے آہ و اف کے نالے سننے میں آتے، ورنہ تکلیفوں کو سینوں میں دبائے برداشت کئے جاتیں۔ اپنی تکلیف کی وجہ سے دوسروں کو تکلیف دینا ان کی طبیعت میں نہیں تھا۔ برداشت کی یہ عادت صرف بیماری سے ہی خاص نہیں تھی۔ گھریلو زندگی میں بھی ان کا یہی طور تھا۔ کسی سے تکلیف بھی پہونچتی تو ان کے لبوں پر شاذ و نادر ہی حرف شکایت آتا۔ اسی ادا نے انہیں ہر دل عزیز بنایا تھا۔ انہیں کبھی کسی سے لڑتے، جھگڑتے تو کجا، تلخ کلامی کرتے نہیں دیکھا۔ نہ کبھی ساس سے بدکلامی کی، نہ کسی نند سے گرما گرمی رہی، نہ کسی دیور سے تنا تنی ہوئی، نہ دیورانیوں سے کھینچا تانی کی، نہ اپنے بہوؤں کو تیور دکھلائے۔
امی کم گو تھیں۔ ان کی اولاد کو بھی شکایت تھی کہ امی کچھ نہیں بتاتیں، بس جتنا پوچھو اتنا ہی بولتی ہیں۔ فون پر بھی ان کی باتیں خبر خیریت اور ضرورت کی باتوں تک ہی محدود ہوتی تھیں۔ وہ فون پر یا ایسے بھی دنیا بھر کی باتیں نہیں کرتی تھیں۔ کانا پھوسی ان کی سرشت میں نہیں تھیں، دوسروں کے عیوب کو چٹخارے لگاکر بیان کرنے سے انہیں پرہیز تھا۔ اس کم گوئی نے انہیں غیبت اور عیب جوئی سے محفوظ رکھا تھا۔ امی بہر حال انسان تھیں، مگر مجھے یقین ہے کہ ایسا کم ہی ہوا ہوگا کہ ان کی زبان سے کسی کو زخم پہونچا ہو۔
*صبر کے ساتھ امی سراپا عزیمت و ہمت تھیں۔*
وہ چھوٹی بیٹی، مگر سب سے بڑی بہو تھیں اور انہوں نے بڑی بہو کا فرض پوری عزیمت، حوصلے اور ہمت کے ساتھ نبھایا تھا۔ وہ دادی کا دست راست بن گئیں، اور دادی کے ساتھ مل کر گھر سنبھالنے، چچا اور پھوپھیوں کی زندگی سنوارنے اور ان کی شادی بیاہ کے انتظام و انصرام سنھبالنے میں انہوں نے کوئی کسر باقی نہیں رکھا۔ جب تک صحت نے ساتھ دیا، خاندان میں کسی کے یہاں شادی بیاہ یا دیگر کوئی تقریب ہو، امی پیش پیش رہتیں، ذمہ داریاں ان کے کندھوں پر آکر چھوٹی اور ہلکی ہوجایا کرتیں، کوئی بیمار پڑا، کسی کو لے کر ڈاکٹر کے پاس جانا ہونا، نظریں ان کی طرف اٹھتیں، اور وہ سب کی تیمارداری کے لئے تیار۔امی مولانا ممتاز علی رحمہ اللہ کی بہو تھیں، جن کے دسترخوان پر کب کتنے آدمی بڑھ جائیں کسی کو معلوم نہیں تھا، مگر امی نے کبھی ان کا سر جھکنے نہیں دیا اور جب جتنے لوگوں کے کھانے کا حکم آیا، دادی کے ساتھ مل کر بلا چوں چرا دسترخوان سجا دیا۔
دادا کا فیصلہ ہوا کہ میرے والد صاحب گاؤں کے بیچ گھر سے گاؤں کے کنارے دروازے پر جو کہ کھلیان تھا، منتقل ہوجائیں۔ اس وقت وہاں کوئی آبادی نہیں تھی، والد صاحب اسکول پر رہتے تھے، ہم بھائی بہن چھوٹے چھوٹے تھے، مگر امی بلا ڈر و خوف، بغیر چوں چرا چھوٹے بچوں کو لے کر وہاں منتقل ہو گئیں۔
میری ابتدائی تعلیم میں سب سے بڑا رول امی کا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ ہر روز مغرب کے بعد وہ مجھے پڑھانے بیٹھتی تھیں۔ بچوں کی تعلیم کے معاملے میں انہوں نے کبھی نرمی نہیں برتی۔ حفظ کے لئے جب میں نانیہال میں رہتا تھا، اور بار بار گھر بھاگ آتا، وہ مجھے جبرا دوبارہ بھیج دیتیں۔ اس وقت اگر ان کی قوت ارادی کمزور ہوئی ہوتی تو شاید آج میں یہ الفاظ سپرد قرطاس کرنے کے قابل نہیں ہوتا۔
امی نے والد صاحب کی خدمت جس استقامت سے کی اس کی مثال نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہے۔ والد صاحب کو ابتدا سے ہی گٹھیا کی شکایت ہوگئی تھی، ان کے دونوں گھٹنے ورم کر جاتے تھے، ان کا چلنا پھرنا بند ہو جاتا تھا، اس حال میں ان کی تیمارداری کرنا، اور پوری زندگی لگ بھگ ان کی تیمارداری میں لگے رہنا صبر و استقامت کی زریں مثال ہے۔
*امی صوم و صلاۃ کی پابند تھیں*
، اور یہ محض زیب داستاں کے لئے نہیں ہے، بلکہ حقیقت بیانی ہے۔ قرآن سے انہیں خاصا شغف تھا، رمضان میں 7-8 ختم کرنا ان کا معمول تھا۔ اس رمضان کے بعد سے اب تک انہوں نے 6 ختم کرلئے تھے۔ بیماری کی حالت میں بھی روزہ توڑنا ان کو شاق گذرتا تھا۔ ہم لوگوں کے منع کرنے کے باوجود بھی وہ روزہ رکھنے پر مصر رہتی تھیں۔ وفات کے وقت ان کے ذمہ کوئی روزہ نہیں تھا۔
معہد البنات یعقوبیہ کی وہ رکن تھیں، اور اس کے تئیں اپنی ذمہ داری بخوبی نبھاتی تھیں۔ مطبخ میں اناج کی دیکھ ریکھ اور اس کی حفاظت کے لئے کوشاں رہتیں، مطبخ کے عملہ کے کاموں کی نگرانی رکھتیں
مدرسے کے پروگراموں میں پیش پیش رہتیں، اور انتظام میں کوئی کمی نہ ہو اس کے لئے اپنی صحت کی بھی پرواہ نہیں کرتیں۔ دار الاقامہ میں مقیم بچیوں سے ان کو بے حد لگاؤ تھا۔ بچیاں انہیں نانی کہہ کر پکارتی تھیں۔
ان کے پھیپھڑوں نے کام کرنا کرنا بند کردیا تھا جس کی وجہ سے ان کے خون میں آکسیجن کی سطح بہت نیچے آگئی تھی، انہیں مستقل آکسیجن پر رکھا جا رہا تھا، اس کے باوجود ان کو سانس لینے میں دقت تھی۔ آخری ہفتے بھر انہوں نے انتہائی بے چینی اور کرب میں گذارا۔ اپنی آنکھوں کا مشاہدہ ہے کہ اس بے چینی و درد میں بھی ہر سانس کے ساتھ ان کی زبان پر اللہ اللہ کا ذکر جاری تھا۔ ان کی تکلیف دیکھ کر دل میں سوال پیدا ہوتا تھا کہ یا اللہ اپنے نیک بندوں کو بھی یہ تکلیف کیوں؟ قاضی محمد حسن ندوی صاحب نے تعزیت کے لئے فون کیا تو یہ حضرت عائشہ رضہ اللہ عنہا سے مروی یہ حدیث سنائی: جب سے میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی موت کی سختی دیکھی ہے، تب سے میں آسان موت کی وجہ سے کسی پر رشک نہیں کرتی۔
اس سے اطمینان ہوا کہ نیک بندوں کو بھی موت کے وقت تکلیف ہوسکتی ہے۔امید تو قوی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے امی کی تکلیفوں کو ان کے گناہوں کا کفارہ اور درجات کی بلندی کا سبب بنایا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ امی کی بال بال مغفرت فرمائے، ان کے قبر کو نور سے بھر دے، انہیں جنت الفردوس عطا کرے، ان کے درجات بلند کرے اور ہم سب لواحقین کو صبر جمیل عطا کرے۔ آمین۔
از : ڈاکٹر محمد علی اختر ندوی
2 / 12 /2024