مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے قرآن کے باب میں آسان معانی قرآن نامی تفسیر لکھی ہے۔ ان کی ایک کتاب قاموس الفقہ پانچ جلدوں میں ہے، اس کتاب میں فقہ میں استعمال ہونے والی اصطلاحات کی وضاحت کی گئی ہے۔ اسی طرح مولانا نے آسان اصول فقہ ، آسان اصول حدیث اور آسان اصول تفسیر جیسی نہایت اہم کتابیں لکھی ہیں جو کہ کئی مدارس میں زیر نصاب بھی ہے۔ مولانا فی الحال آل انڈیا پرسنل لا بورڈ کے صدر ہیں۔
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب کے خطاب کے اہم نکات
🔵 – طلباء کو حال و مستقبل میں کیا کرنا چاہئے :-
دوران طالب علمی اس کی توجہ صرف اپنے پیش نظر مقصد پر ہونا چاہئے۔ موجودہ دور میں طلبا وقت سے پہلے ان مسائل پر توجہ دے رہے ہیں جو ان کے دائرہ کار سے خارج ہے۔ اس میں بڑا رول سوشل میڈیا کا ہے۔ مولانا نے کہا کہ آج بچے اپنے ابتدائی ایام طالب علمی میں ہی آئیندہ زندگی کے اقتصادی مراحل کے بارے میں سوچنے لگتا ہے۔ ایسا کرنے سے طلبا منتشر مزاجی کا شکار ہو رہے ہیں اور گہرائی و گیرائی سے محروم ہو رہے ہیں۔ لہذا، طلبا کو اپنے مقصد کے باب میں نہایت یکسو ہو کر لگ جانا چاہئے۔ حدیث میں آیا ہے کہ اللہ کو بندے کا وہ عمل پسند ہے جس میں وہ اتقان و احسان پیدا کرے۔
🔵- طلبا کو رزق کی فکر میں زیادہ سرگرداں نہیں ہونا چاہئے۔
طلبا کو اس بات کا یقین پیدا کرنا چاہئے کہ رزق فراہم کرنے والی ذات اللہ ہے۔ جب تک طلبا علم حاصل کریں، انہیں رزق کی جانب سے آنکھیں بند رکھنا چاہئے۔ جس اللہ نے اس وقت پالا جب ہم میں شعور بھی نہیں تھا تو اب جب کہ ہمارے اندر شعور آ چکا ہے، وہ ہمیں یوں ہی چھوڑ دیگا۔
🔵- علم کا ذوق پیدا کیجیے۔
ایک چیز ہے کسی چیز کو اچانک پا لینا اور ایک چیز ہے کسی چیز کو دریافت کر لینا۔ یہ دونوں چیزیں مختلف ہیں۔ دریافت سے ذوق پیدا ہوتا ہے۔ پالینا کسی مریض اور عامی کے لیے کافی ہو سکتا ہے مگر ڈاکٹر اور عالم کیلئے دریافت یعنی تحقیق و جستجو ضروری ہے۔ اس طرح علمی ذوق پروان چڑھے گا۔ مثال کے طور پر اگر ایک مسئلہ آپ کو فقہ میسر ملے، پھر آپ اس مسئلہ کو قدوری میں تلاش کریں، پھر مزید آپ ہدایہ اور در مختار میں تلاشا۔ پھر آپ نے قرآن و حدیث میں اس کا مصدر تلاش کیا۔ یہ پورا سفر الفقہ المیسر سے شروع ہوا اور ختم قرآن و حدیث پر ہوا، اسی کا نام دریافت ہے۔ اس وقت ہمارے طلبا بلکہ خواص تک میں جذبہ تحقیق و جستجو سرد ہو گیا ہے۔ بڑے بڑے خطبا احادیث نقل کرتے ہیں اور مصادر سے ناواقف ہوتے ہیں۔ مولنا نے مشورہ دیا کہ جو چیز بھی پڑھی جائے، اس کے اصل ماخذ سے پڑھنے کی کوشش کی جائے۔ اصل ماخذ سے رجوع کرنے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آپ میں خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے۔ آدمی کسی کام کو شروع کرے تو اس کی تہ تک پہنچے۔ اسی کا نام تحقیق ہے۔مولنا نے فرمایا کہ عمل کی کمی پوری ہو جاتی ہے، مگر علم کی کمی مشکل سے پوری ہوتی ہے، لہذا، اس دور میں پورے انہماک سے علم حاصل کرو۔
🔵- جس علم کو بھی حاصل کریں ، یہ نیت کر کے پڑھیں کہ اس علم کا امام بننا ہے۔ علم صرف عبارت پڑھ کر ترجمہ کر لینے کا نام نہیں ہے بلکہ تہ تک پہنچنے کا نام ہے۔
🔵- مستقبل کے لیے تیار ہوئیے۔ مولانا نے فرمایا کہ جس قدر مسائل کا ہمیں آج سامنا ہے، اس سے زیادہ مسائل کا سامنا آپ کو ہوگا۔ میں نے تین دور دیکھے ہیں، ایک وقت وہ تھا کہ لوگ مسائل پوچھتے تھے اور صرف مسئلہ بتا دینے پر مطمئن ہو کر اس پر عمل کرنے لگ جاتے تھے۔ پھر دوسرا دور میں نے یہ دیکھا کہ لوگ مسئلہ کے ساتھ حوالہ اور مصدر دریافت کرنے لگے۔ پھر اب تیسرے دور کا آپ کو سامنا کرنا ہے کہ اب آپ سے صرف مسئلہ اور مصدر نہیں پوچھا جائے گا بلکہ اس کی حکمت و عقلیت بھی آپ کو ثابت کرنی پڑے گی۔
🔵- قرآن نے دو طبقے بیان کیے ہیں۔ ایک غافلین اور دوسرا جاحدین کا۔ غفلت رفتہ رفتہ دور ہو جاتی ہے، مگر جحود ختم نہیں ہوتا۔ لہذا، یہ دور جس سے آپ کو سابقہ ہے، یہ دور جحود کا ہے۔ اس دور میں لوگوں کی اصلاح نہایت مشکل کام ہے۔ اس لیے آپ کو خود کو تیار کرنا ہے اور وہ تیاری یہ ہے کہ آپ مجادلہ احسن پر قدرت رکھتے ہوں۔ آپ شریعت اسلامی کے مسائل کو عقل و فطرت کی کسوٹی پر کس کر ثابت کر سکیں۔ شاہ ولی اللہ صاحب نے اپنے دور میں یہی بڑا کام کیا کہ شریعت کی حکمتیں اس دور کے اسلوب میں بیان کیا۔ آج استدلال کی نئی صورتیں پیدا ہو گئی ہیں ، آپ کو اس کو حاصل کر کے شریعت کے دفاع کے لیے میدان میں اترنا ہے۔ ایک ایسے عالم بن کر مدرسہ کے چہار دیواری سے نکلیں کہ باہر کی دنیا آپ کے لئے نامانوس نہ ہو، بلکہ باہر ہونے والے سوالات اور اعتراضات کے لیے پہلے سے تیار یوں۔ ندوہ کی خصوصیت رہی ہے کہ بین مسلکی جھگڑوں کو یہاں اٹھایا ہی نہیں جاتا بلکہ خارجی فتنوں کو اپنا ترجیحی عنوان بنائیں۔