لسانِ قوم کی اہمیت
مصنف : پروفیسر محسن عثمانی ندوی
تبصرہ نگار : محمد طاہر خان ندوی
یہ کتابچہ دراصل پروفیسر محسن عثمانی ندوی صاحب کا ایک مقالہ ہے جسے جامعہ ہمدرد یونیورسٹی دہلی میں شعبہ اسلامک اسٹڈیز کے زیر اہتمام ایک سیمینار کے لئے لکھا گیا تھا ۔ یہ 56 صفحات پر مشتمل ہے اور ہیومن ویلفئیر کونسل نئی دہلی نے شائع کیا ہے ۔ اس کتابچے میں بنیادی طور پر لسانِ قوم کی اہمیت اور موجودہ دور میں اس کی افادیت پر زبردست گفتگو کی گئی ہے اور یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ انبیاء کرام کے پیغام اور مشن کو اہل دنیا تک پہنچانے میں لسانِ قوم کا کتنا بڑا کردار رہا ہے ۔
انبیاء کرام کا پیغام اور مشن توحید کی دعوت اور معبودانِ باطلہ کا انکار کرنا تھا اور اس مشن کے لئے انہیں قوم کی زبان دی جاتی تھی ۔ انبیاء کرام کا پیغام سب سے بڑا پیغام تھا اور ان کا مشن سب سے عظیم مشن تھا اور اس پیغام کو دنیا کے آخری انسان تک پہنچانے کی ذمہ داری اس امت پر تھی اور اس عظیم ذمہ داری کو ادا کرنے کے لئے لسانِ قوم پر عبور ضروری تھا لیکن ہوا یہ کہ ہم مسلمانوں نے اس ملک کی زبان پر کوئی توجہ نہیں دی ۔ نتیجہ یہ ہوا انبیاء کرام کی وہ دعوت ( توحید کی دعوت اور معبودانِ باطلہ کا انکار ) جسے لیکر انہیں مبعوث کیا جاتا تھا وہ دعوت چھوٹ گئی ۔
حضرت مولانا سید مناظر احسن گیلانی رحمہ اللّٰہ نے لکھا تھا کہ اسپین میں مسلمان چاہے مسجد قرطبہ اور مدینۃ الزھراء اور بے شمار عدیم النظیر تعمیری کام انجام دیتے لیکن وہ کام کرتے جو مسلمانوں نے مکی زندگی میں کیا تھا یعنی دعوت کا کام تو اسپین سے مسلمانوں کی حکومت ختم نہ ہوتی ۔ مصنفِ کتاب ، علامہ سید مناظر احسن گیلانی رحمہ اللہ کی پیروی کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ہندوستان میں مسلمانوں نے چاہے تاج محل ، قطب مینار اور لال قلعہ نہ بنایا ہوتا لیکن وہ کام کرتے جو مسلمانوں نے مکی زندگی میں کیا تھا تو مسلمانوں کے اقبال کو گہن نہ لگتا اور ان کے اقتدار کا سورج غروب نہ ہوتا ۔
انبیاء کرام کی دعوت کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لیے لسانِ قوم پر عبور ضروری ہے اور اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں ۔ ہندوستان میں لسانِ قوم کی اہمیت کو سب سے پہلے محسوس کرنے والے سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمۃاللہ علیہ تھے ۔ یہ مولانا مودودی کی مومنانہ فراست تھی کہ انہوں نے سب سے پہلے اس اہم مسئلے کی طرف مسلمانوں کو توجہ دلائی اور فرمایا کہ ہندوستان میں انگریزوں کے جانے کے بعد ہندؤں کی انگریز دشمنی تو ختم ہو جائے گی لیکن مسلم دشمنی باقی رہے گی اس وقت جو سب سے ضروری کام ہوگا وہ یہ کہ اسلام کے پورے لٹریچر کو ہندی اور علاقائی زبانوں منتقل کر دیا جائے اور یہ لٹریچر غیر مسلموں تک پہنچایا جائے ۔
مفکر اسلام حضرت مولانا ابوالحسن علی میاں ندوی رحمۃ اللّٰہ علیہ بھی ہر سال ندوے میں طلباء کو خطاب فرمایا کرتے تھے کہ آپ جہاں بھی رہیں برادران وطن کو اسلام سے مانوس کرنے کی کوشش کریں اور اسی مقصد سے آپ نے پیامِ انسانیت کی تحریک شروع فرمائی۔ آج ہندوستان کے جو حالات ہمارے سامنے ہیں ان حالات کو دیکھتے ہوئے علماء کرام کو چاہئے کہ لسانِ قوم پر عبور حاصل کریں اور انبیاء کرام کے پیغام اور مشن کو دنیا کے سامنے پیش کریں ۔