کتاب : مباحثہ شاہ جہاں پور
افادات : الامام محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللّٰہ
ناشر : حجۃالاسلام اکیڈمی(وقف دیوبند)
صفحات : 136
قیمت: 90
تعارف نگار : معاویہ محب اللّٰہ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
حجۃالاسلام مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللّٰہ کی شخصیت اپنے عہد کی ایک تاریخ ساز شخصیت تھی، انہوں نے اپنی خدا داد صلاحیتوں اور اپنے فضل وکمال، علم وفن اور فطری ذہانت و ذکاوت سے فایدہ اٹھا کر ملتِ اسلامیہ ہندیہ پر گہرے نقوش مرتسم کیے، الامام نانوتوی نے دین کے بنیادی عقائد ؛ وجودِ باری تعالیٰ، توحید خالص، رسالت جیسے موضوعات میں استدلال کا جو انداز اختیار کیا ہے وہ زیادہ تر عقلی بنیادوں پر استوار کیا ہے، صرف عقلی دلائل ہی نہیں بلکہ مشاہدات و محسوسات پر مبنی تمثیلوں کی روشنی میں ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے، یہاں تک کہ علومِ نانوتوی کے رمز شناس مولانا مناظر احسن گیلانی نے لکھا ہے ؛
” اگر ذرا سا ان کا قالب بدل دیا جائے تو عصرِ حاضر کا بہترین علم کلام تیار ہوسکتا ہے”
معارفِ نانوتوی پر مشتمل کتابیں تو بہت ہیں، لیکن سرِ دست جو کتاب ہمارے مطالعہ میں ہے وہ 1877ء میں ہونے والے مناظرے کی روداد ہے، دینِ نصرانیت کی دعوت وتبلیغ کے لئے انگریزی حکومت پوری طرح کوشاں تھی، اس کے لئے انہوں نے ملک بھر میں پادری پھیلا رکھے تھے تاکہ عیسائیت کی دل کھول کر تبلیغ کی جاسکے، ایسے میں منشی پیارے لال جو تحصیل شاہجہان پور کے قصبہ چاندا پور کے رہنے والے متمول اور صاحبِ جائداد شخص تھے، کانپور کے عیسائی ماسٹر اور پادری نَولِس کے ساتھ منشی جی کے بڑے گہرے مراسم تھے، ایسے میں منشی جی کو مختلف مذاہب کے مابین مکالمہ و مناظرہ کی سوجھی، چنانچہ پہلا میلہ ” خدا شناسی” کے عنوان سے 1876ء میں رکھا گیا۔ اب انھیں ہر سال میلہ منعقد کرنے میں لطف آنے لگا، چنانچہ دوسرے سال 19، 20 مارچ 1877ء میلہ منعقد کرنے کا اعلان کردیا، اور مختلف مذاہب کے علماء کو دعوت دی، اس میں اسلام کی ترجمانی کرنے کے لئے مولانا نانوتوی اور مولانا ابو المنصور صاحبان تھے، سناتن دھرم کی نمائندگی پنڈت دیانند سرسوتی کررہے تھے، اور پادری نولس اور پادری اسکاٹ عیسائیت کی ترجمانی کرنے کے لئے بلائے گئے تھے۔
یہ کتاب امام نانوتوی رحمہ اللّٰہ کی با ضابطہ تحریری کاوش نہیں ہے، بلکہ آپ کے شاگرد رشید مولانا فخر الحسن گنگوہی جو مناظرہ کے عینی شاہد ہے، نے پورے جلسہ کی روداد کو مرتب کیا ہے۔
آغازِ کتاب میں مناظرہ کے شرائط اور پادریوں اور پنڈتوں کے نخروں کی دلچسپ داستان ہے، اس کے بعد اصل مناظرہ کا آغاز ہوتا ہے، حسبِ شرائط پہلی تقریر حجۃالاسلام امام نانوتوی رحمہ اللّٰہ کی ہے، آپ نے وجود باری تعالیٰ، توحید باری تعالیٰ، باری تعالیٰ کا واجب الاطاعت ہونا، نبوت کی ضرورت، رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا افضل الانبیاء اور خاتم النبیین ہونا، نجات کا مدار نبوتِ محمدی پر ایمان لانا ہے ؛ جیسے موضوعات پر گفتگو فرمائی ہے، انھیں موضوعات کو مولانا نانوتوی نے اپنی کتاب “حجۃالاسلام” اور “تقریر دلپذیر “میں تفصیل و وضاحت کے ساتھ بیان فرمائی ہے۔
اس تقریر پر کسی نے کوئی معارضہ تو نہیں کیا، البتہ امام نانوتوی کی تقریر میں جزئیات پر پادری محی الدین نے چار اعتراضات چھیڑ دئے، پھر کیا تھا کہ دیگر پادریوں کو بھی پادری محی الدین کی نادانی کی وجہ سے شرمندگی ورسوائی کا اچھا خاصا سامنا کرنا پڑا، اعتراض یہ تھے ؛
(1)
اگر انبیاء معصوم ہے تو سیدنا آدم علیہ السلام نے باوجود ممانعت کے کیوں گیہوں کھالیا؟ (اس جواب کے ضمن میں تحریفِ انجیل کا مقدمہ درپیش ہوا، اس میں پادریوں کو اعتراف کیے بنا جان نہیں چھوٹی)
(2)
آیت وَإِن مِّنۡ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِیهَا نَذِیرࣱ کی روشنی میں عرب میں کونسا پیغمبر آیا تھا؟
(3)
معجزاتِ محمدی کا ثبوت قرآن سے کیوں نہیں دیا ؟ ( حضرت نانوتوی نے استوانۂ حنانہ کی مثال حدیث سے دی تھی، لیکن معجزۂ شق القمر، پیشن گوئی خلافت قرآن سے بھی ذکر کردی تھی)
(4)
درودِ ابراہیمی میں “کما صلیت” اور “كما باركت” میں مشبہ بہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام ہے، اور تشبیہ میں مشبہ بہ افضل ہوتا ہے، لہذا محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم افضل الانبیاء کیسے ہوئے؟
پہلے دن ہر مذہب کے نمائندے کو اپنے مذہب کے متعلق گفتگو کرنے کا موقع دیا گیا تھا، لیکن دوسرا اور تیسرا دن جلسہ کے بانی منشی پیارے لال کی جانب سے دیے گئے پانچ سوالات پر گفتگو ہونی تھی ؛
(1)
دنیا کو پرمیشور نے کس چیز سے بنایا، کس وقت اور کس واسطے؟
(2)
پرمیشور کی ذات محیطِ کل ہے یا نہیں؟
(3)
پرمیشور عادل ہے یا رحیم ہے، دونوں کس طرح؟
(4)
وید، بائبل اور قرآن کے کلامِ الٰہی کی کیا دلیل ہے؟
(5)
نجات کس میں ہے؟
ان سوالات میں سے دوسرے دن صرف پہلے سوال پر رد و قدح کا سلسلہ جاری رہا، اور اسی پر جلسہ برخاست ہوگیا، تیسرے دن منشی جی نے پانچویں سوال (نجات کس میں ہے؟) پر گفتگو کے لئے کہا، گویا صرف پہلے اور آخری سوال پر گفتگو ہو پائی۔
پادری اسکاٹ نے الوہیتِ مسیح کے موضوع کو چھیڑ دیا، اس پر الامام نانوتوی نے فتح وکامرانی کی کیل ٹھوک دی، اور پادری اسکاٹ کی بے عقلی کا پردہ پوری طرح فاش ہوگیا، یہ بحث و تمحیص کتاب میں خاصی طویل ہوگئی ہے۔ اخیر میں پنڈت دیانند سرسوتی کے دو اعتراضات ہوئے جس پر امام نانوتوی نے جوابات عنایت فرمائے؛ (1) شیطان کے وجود پر تھا، اور (2) جنت کہاں ہے؟ کے عنوان سے تھا، اس پر کتاب تمام ہوئی ہے۔
کتاب علمی و منطقی اصطلاحات پر مشتمل ہونے کے ساتھ ڈیڑھ سو سال پرانے اردو اسلوب میں ہے، لیکن مولانا نانوتوی کی کتابوں سے مزاولت رکھنے والے کے لئے یہ زبان مانوس بن جاتی ہے۔
وصف ذاتی اور وصف عارضی کے فلسفہ کی بنیاد پر مولانا نانوتوی رحمہ اللّٰہ نے وجودِ خدا اور توحید کے مسئلے کو بڑی خوش اسلوبی سے حل کردیا ہے، لیکن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ کے افضل الانبیاء اور خاتم النبیین ہونے کو ثابت کرنے کے لئے بھی اسی فلسفہ سے استفادہ کیا ہے، بنیادی طور پر یہ فلسفہ ابن عربی رحمہ اللّٰہ نے اپنی کتاب فصوص الحکم میں بیان فرمایا ہے، اس پر تفصیلی بحث تفہیم کے سلسلے میں قلمبند کرنے کا ارادہ ہے۔کتاب کافی دلچسپ ہے، ایک عبقری متکلم اور انیسویں صدی کے مایۂ ناز عالم دین کے افادات پر مشتمل ہے، اس کتاب کا میرے مطالعہ میں رہنا ہی میرے لئے سعادت کی چیز ہے۔
✍️ : معاویہ محب اللّٰہ