از: قاضی محمد حسن ندوی
قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء کرام علیھم السلام امت کی ہدایت کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کے سلسلہ میں بہت زیادہ فکرمند رہتے تھے کہ وہ دین پر قائم رہیں اور ان کو دین کی حالت میں موت آئے ، قرآن کریم میں کئ انبیاء کرام کا ذکر آیا ہے ،ان میں ایک اہم ترین نام حضرت یعقوب علیہ السلام کا ہے، حضرت یعقوب علیہ السّلام کا پورا خانوادہ نبیوں اور رسولوں کا تھا ، باپ ،چچا ،دادا، بیٹا، سب اللّٰہ کے پیغمبر ہیں ،اس سے خود اندازہ ہوتا ہے کہ اس خاندان میں دین داری ،تقوی اور خشیت الٰہی کس معیار پر رہی ہوگی،گھر کے ماحول پر کیسی دینی فضا سایہ فگن ہوگی ، ذرا غور کریں ایسے دین دار گھرانہ کے افراد سے گناہ اور معصیت کا اندیشہ بھی لوگوں کو نہیں ہوتا ، چے چائے کہ کفروشرک کا خوف ان سے ہو ، لیکن جب حضرت یعقوب علیہ السّلام کی وفات کا وقت آیا تو انہوں نے اپنے صاحبزادوں سے سوال کیا:( ماتعبدون من بعد ی) البقرہ : 133) میرے بعد تم کس کی عبادت کروگے ؟ صاحبزادگان نے جواب دیا: ” نعبد الھک وآلہ آبائک ابراہیم و اسماعیل واسحق الھا واحدا ونحن لہ مسلمون”( البقرہ:133) ہم آپ کے خدا ،آپ کے آبا و اجداد ابراہیم ،اسماعیل،اسحاق کے خدا پرستش کریں گے ،جو خدا کے واحد ہے اور ہم اسی کے فرمانبردار ہوکر رہیں گے
سیدنا حضرت ابرہیم علیہ السلام بھی اپنی وفات کے وقت اپنے بیٹوں کو جو خود نبی تھے وصیت فرمائی : ان اللّٰہ اصطفی لکم الدین فلاتموتن الا وانتم مسلمون: البقرہ 132) بے شک اللہ تعالیٰ نے تم لوگوں کےلئے دین ککو منتخب کیا ہے ،اس لئے تم لوگوں کی موت حالت اسلام میں ہونی چاہیے
آج کل اکثر لوگ اس فکر میں ضرور رہتے کہ ہمارے مرنے کے بعد بچے کیا کھائیں گے ،معاشی مسئلہ کیسے حل ہوگا؟ مگر اس اعتبار سے فکر مند نہیں ہوتے کہ میرے مرنے کے بعد میرے بچے ایمان پر باقی رہیں گے یانہیں ، لیکن اللہ نبیوں کی فکر کچھ اور ہوتی ہے جیساکہ اوپر حضرت یعقوب اور حضرت ابرہیم علیھم السلام کی حکایت سے بات عیاں ہوئ واقعی ان دونوں انبیاء کرام علیھم السلام کی فکرمندی سے اندازہ کیجئے کہ یہ حضرات اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کے سلسلہ میں کس قدر بیدار رہتے ،اور اپنی اولاد کی نقل و حرکت پر نہ صرف نگاہ رکھتے بلکہ جب تک اپنی اولاد کو دین پر اور دینی اعمال پر نہیں دیکھتے وہ اپنی اولاد کے تعلق سے بے فکر نہیں رہتے،
یہی فکر مندی ہمارے آخری نبی محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم میں تھی،جب آپ منصب نبوت سے سرفراز کئے گئے ،ابتدا میں خفیہ طور پر لوگوں کو کلمہ اسلام کی دعوت دیتے رہے ،اور لوگ اسلام بگوش ہوتے گئے ،لیکن جیسے ہی اعلانیہ طور پر اسلام کی دعوت دینے کا پیغام آیا ( فاصدع بماتومر واعرض عن المشرکین)جو کچھ آپ کو حکم دیا گیا ہے اس کو علی الاعلان سنادیجئے ،مشرکین کی پرواہ مت کیجئے) تو ایک طرف آپ نے صفا پہاڑی پر چڑھ کر مکہ کے تمام قبائل کے علاوہ اپنے خاندان کے لوگوں کو بھی گوش گزار کیا ،اور یہ کہا کہو ( لاالہ الااللہ تفلحون) کامیاب ہو جائو گے، دوسری طرف جو لوگ آپ کے ہاتھ پر ایمان لے آتے ،ان کی تعلیم و تربیت اور قلبی تزکیہ کے لئے مکہ میں ایک مقام دار الندوی میں لوگوں کو جمع کرتے، اور دلوں کی اصلاح فرما تے، اور اس کے لئے عملی طور پر تدبیر بتاتے ، اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس پر عمل کرکے اپنی زندگی کو کامیاب بنایا الغرض آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے بعثت نبوی کے مقاصد کو پورا کرنے میں کوئی دقیقہ نہیں چھوڑا ، اور آپ نے اپنے فرض منصبی کو بحسن وخوبی انجام دیا انبیاء کرام کی طرح اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں مومنین کو بھی بچوں کی تعلیم و تربیت کی تاکید کی ہے ارشاد ربانی ہے : ( یاایھا الذین آمنوا قوا انفسکم واھلیکم نارا: التحریم:6) اے ایمان والو! ناردوزخ سے خود اپنے آپ کو بچائو ،اور اپنے اہل وعیال کو بھی ،
حدیث میں ہے کہ اس آیت کریمہ کے کے نازل ہونے کے بعد سید نا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے دربار رسالت میں عرض کیا: اللّٰہ کے رسول! اپنے آپ کو جہنم سے بچانے کی فکر تو سمجھ میں آ گئ ،مگر اہل وعیال کو کس طرح نار دوزخ سے بچائیں گے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: اس کا طریقہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو جن کاموں سے منع فرمایا ان کاموں سے اپنے اہل وعیال کو منع کر و،اور جن کاموں کے کرنے کا حکم تم کو دیا ان کا اپنے اہل وعیال کو بھی حکم کرو،تو یہ عمل ان کو نار دوزخ سے بچا جاسکے گا ( روح المعانی ،معارف القرآن: ج8 ص 502)
زمہ داری کا احساس
بچوں کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری کا خیال گجرات کے مسلمان نے جس طرح کیا ہے ،اس طرح دوسرے صوبوں کے مسلمانوں نے فکر نہیں کیں،گجرات میں مکاتب،مدارس اور دعوت وتبلیغ تینوں کے ذمّہ دار بہت ہی سرگرم کی صورت میں دین کو فروغ دے رہے ہیں ،اس کے نتائج بہت بہتر ظاہر ہو رہے ہیں،خاص طور پر یہاں ہر مسجد کے تحت ہر محلہ میں مکتب نظام بہت ٹھوس ہے ،اس کی وجہ سے یہاں معاشرتی زندگی میں دینی رمق اور دینی ماحول پایا جاتا ہے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ یہاں مزید مکاتب کے نظام کو مستحکم فرمائے اس کے برعکس بہار اور یوپی میں مکاتب کا نظام نہیں کے برابر ہے ،ادھر امارت شرعیہ بہار کی سرپرستی میں کچھ علاقے میں چل رہے ہیں جو کافی نہیں ،ضرورت ہے کہ گجرات کی طرزِ پر ہر گائوں ہر محلہ میں مکتب کا قیام ہو ،تاکہ کوئ مسلمان بچہ اور بچی کلمہ نماز ،اور دین کی بنیادی باتوں سے محروم نہ ہوں ،بلکہ ضروریات دین سے پورے طور پر واقف ہوں ، یوں تو ہر ضلع اور ہر قصبہ میں بڑا مدرسہ اپنی پوری آن بان شان کے ساتھ جاری وساری ہے ،اس کے پیچھے قوم کا بڑا سرمایہ صرف ہورہاہے ،مگر کیا امت کی ضرورت پوری ہو رہی ہے؟ سروے کے بعد آپ اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ بعض مدرسہ کے علاوہ اکثر مدارس کا حال یہ ہے کہ وہاں ابتدائی تعلیم کا بھی کوئی معقول نظم نہیں ،اسی طرح مسلمانوں کی طرف سے بھی بے توجہی اس پہلو سے بہت زیادہ ہے ،ہر علاقے میں بعض ایسے مسلمان ہیں جو ایک مکتب کی دیکھ ریکھ اور اس کا صرفہ برداشت کرسکتے ہیں ،اللہ نے مالی طور پر خوشحال بنایا ہے ،مگر اس میں صرف نہیں کرتے ہاں اگر مشاعرہ کی تقریب منعقد ہوتی ہے تو ایک رات کی زہنی تعیشات کے لیے لاکھوں روپے صرف کرنے میں کوئی دریغ نہیں کرتے ،دوسری طرف بڑی تعداد میں وہ لوگ ہیں جو اپنی اولاد کی شادی اور اس کے رسم و رواج میں لاکھوں روپے لگا دیتے لیکن اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت پر کوئی توجہ نہیں دیتے، اس وقت عام طور عصری تعلیم کی طرف توجہ پہلے کے مقابلے میں زیادہ ہوئی ہے، یہ خوش آئند بات ہے ،لیکن اکثر لوگ افراط و تفریط کے شکار ہیں، یعنی بعض لوگ اپنے بچوں کو عصری تعلیم دلاتے ہیں تو دینی تعلیم سے بالکل پہلو تہی کرلیتے، یا بعض اپنے بچوں کو دینی تعلیم کے لئے مدارس میں داخل کرتے تو ان کو عصری تعلیم سے دور رکھتے ، یہ دونوں طریقے وقت کے تقاضوں اور راہ اعتدال کے خلاف ہیں ۔
ضرورت ہے ہم اپنے بچوں کو شروع میں چار سال تک صرف دین اور مذھبی تعلیم کے زیور سے آراستہ کریں ، یہ طریقہ فطرت کے مطابق ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر بچہ کو فطرت اسلام پر پیدا کیا ہے،( کل مولود یولد علی الفطرۃ)، تو بچے آسانی کے ساتھ دینی تعلیم سے آراستہ ہونگے ورنہ بعد دشواری ہوتی ہے ،ہاں! جب بچوں کے عقائد اور دینی تعلیم مظبوط ہو جائے تو پھر تمام علوم سے بہرور کرے ، اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح سمجھ عطا کرے آمین