اسلام ایک ہمہ گیر، فطرت سے ہم آہنگ، احترام و حقوق انسانیت کا علم بردار آفاقی مذہب ہے، جس کو روئے زمین پر بسنے والی سبھی مخلوق کے ساتھ عادلانہ و منصفانہ برتاؤ  پیش کرنے کے لئے بھیجا گیا ہے ، 

    اسلامی شریعت میں عدل کا تصور دو اجزاء سے عبارت ہے: ایک یہ کہ بنی نوع انسان کے درمیان مختلف حقوق و رعایات میں توازن و تناسب قائم کیا جائے، دوسرے یہ کہ ہر کسی کو اس کا استحقاق دیا جائے اور اس کے حق کو ادا کرنے کی یقینی صورت پیدا کی جائے، اس تصورِ عدل کے بغیر فرد ہو یا معاشرہ یا ریاست، ہلاکت خیز اور سنگین نتائج کا سامنا کرتے ہیں،

    عَدَل عربی گرائمر کی رو سے مصدر ہے،  قرآن مجید میں عدل کو  برابری، نیک نیت، قیمت، مردِ صالح اور حق و انصاف کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے، اُردو زبان میں عدل کے لیے عموما انصاف کا لفظ مترادف کے بطور استعمال ہوتا ہے جو علمی اور لغوی اعتبار سے چنداں درست نہیں ہے، انصاف کے معنی “تصنیف یا نصف نصف کرنے” کے ہیں، یوں اس سے مراد حقوق کو محض برابر تقسیم کر دینا ہے، لیکن عدل کی قرآنی اصطلاح محض مساویانہ تقسیم کا نام نہیں ہے، کیونکہ مساوات مجرد انداز میں، خلافِ فطرت امر ہے، حقیقت میں عدل کا تقاضا یہ ہے کہ مساوات کی بجائے توازن و تناسب قائم کیا جائے، گرچہ عدل مساوات کے مفہوم کو بھی  شامل ہے ،  شریعت کی رو سے عدل کا تقاضا ہے کہ ہر فرد کے قانونی، آئینی، تمدنی، سیاسی، معاشی، معاشرتی اور اخلاقی حقوق کو پوری ذمہ داری اور آخرت کی جواب دہی کے احساس کے ساتھ ادا کیا جائے، 

 اللہ رب العزت نے اس کائنات کے تکوینی امور میں اس صفت کا کمال درجہ خیال رکھا ہے، اس کائنات کے تمام اجزائے آفرینش عدل کے باعث برقرار ہیں اور ان کے منافع اور ثمرات بھی تکوینی امور میں عدل کی موجودگی کے باعث میسر ہیں، اس حقیقت کی طرف قرآن مجید نے مختلف مقامات پر توجہ دلائی ہے ۔۔

سورۃ الملک میں ارشاد ہوتا ہے:

﴿مَّا تَرَىٰ فِي خَلْقِ الرَّحْمَـٰنِ مِن تَفَاوُتٍ ۖ فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرَىٰ مِن فُطُورٍ ﴿٣﴾ ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ كَرَّتَيْنِ يَنقَلِبْ إِلَيْكَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَهُوَ حَسِيرٌ ﴿٤﴾…الملک

“تم رحمٰن کی تخلیق میں کسی قسم کی بے ضابطگی نہ پاؤ گے۔ پھر پلٹ کر دیکھو، کہیں تمہیں کوئی خلل نظر آتا ہے ۔۔ بار بار نگاہ دوڑاؤ، تمہاری نظر تھک کر نامراد پلٹ آئے گی۔”

       یہ کائنات عدلِ تکوینی کا ایک سدا بہار اور زندہ جاوید خزانہ ہے، اس جہاں کی ساری نعمتیں عدلِ تکوینی کے باعث ہیں، زمین کے خزانے اور فضا کے انعامات سبھی تناسب و توازن کے باعث ہمیں میسر ہیں، اگر اس کائنات کے اجزاء میں عدلِ تکوینی کی صفت غائب ہو جائے یا کم پڑ جائے تو یہ زمین آسمان کے درمیان موجود کائنات، انسانیت اور دوسری مخلوقات اور افزائش و پیدائش کے لیے جہنم زار بن جائے، فطرت کا یہ مستقل ضابطہ اور قاعدہ ہے کہ جو چیز تناسب اور توازن کو اختیار کر کے عدل تکوینی کا مظہر بن جائے گی، وہ انسانیت کے لیے رنگا رنگ اور متنوع فوائد اور ثمرات پیش کرے گی اور جن اجزائے کائنات میں سے عدل گستری اور توازم و تناسب کا یہ حسب ختم ہو جائے گا، وہ انسانیت کے لیے فائدے کی بجائے نقصان کا موجب ہوں گے۔

       جہاں اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام میں سے ایک نام عدل ہے وہیں  اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی عظیم الشان صفت بھی عدل  ہے، قرآن کریم میں ارشاد ہے:

’’شَھِدَ اللّٰہُ أَنَّہٗ لَا إِلٰہَ إِلَّا ھُوَ وَالْمَلٰئِکَۃُ وَأُولُوْا الْعِلْمِ قَائِمًا بِالْقِسْطِ لَا إِلٰـہَ إِلاَّ ھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ۔‘‘                                                  

(آلِ عمران:۱۸)

’’ اللہ نے گواہی دی کہ کسی کی بند گی نہیں اس کے سوا اور فر شتوں نے اور علم والوں نے بھی، وہی حاکم انصاف کا ہے، کسی کی بند گی نہیں سوا اس کے، زبردست ہے حکمت والا ۔‘‘

    اللہ کا نام عدل ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا فیصلہ حق ہوتا ہے ، وہ حق بات کہتا ہے ، اور وہی کرتا ہے جو حق ہے ، قرآن پاک میں بھی اس حقیقت کو مختلف لفظوں میں دہرایا گیا ہے ، 

   ” و الله يقضي بالحق ”  اور اللہ حق کے ساتھ فیصلہ کرتا ہے ، اور یہ عدلی عملی کی طرف اشارہ ہے ، دوسری آیت میں ہے ، ” و الله يقول الحق” اور اللہ حق بات کہتا ہے ، اور یہ اللہ تعالیٰ کے عدلی قولی کو ظاہر کرتا ہے، 

         قرابت کے مو قع پر بڑے سے بڑے انصاف پرور کے قدم ڈگمگا جاتے ہیں اور وہ جانب داری کی خاطر عدل وانصاف کا دامن چھوڑ دیتا ہے، مگر فرزندانِ اسلام سے ایسی نازک صورت حال میں بھی عدل وانصاف قائم رکھنے کا عہد لیا گیا ہے:

يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا كُوۡنُوۡا قَوَّامِيۡنَ لِلّٰهِ شُهَدَآءَ بِالۡقِسۡطِ‌ ۖ وَلَا يَجۡرِمَنَّكُمۡ شَنَاٰنُ قَوۡمٍ عَلٰٓى اَ لَّا تَعۡدِلُوۡا‌ ؕ اِعۡدِلُوۡا هُوَ اَقۡرَبُ لِلتَّقۡوٰى‌ وَاتَّقُوا اللّٰهَ‌ ؕ اِنَّ اللّٰهَ خَبِيۡرٌۢ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ ۞

اے ایمان والو اللہ کے لیے پوری پابندی کرنے والے (اور) عدل کے ساتھ شہادت دینے والے رہو، اور کسی جماعت کی دشمنی تمہیں اس پر نہ آمادہ کردے کہ تم (اس کے ساتھ) انصاف ہی نہ کرو انصاف کرتے رہو (کہ) وہ تقوی سے بہت قریب ہے  ۔ (سورۃ المائدہ، آیت نمبر :۸)

 اسی طرح جب کسی سے بغض وعداوت ہو تو عدل وانصاف کے تقاضے عمومًا بالائے طاق رکھ دیئے جاتے ہیں اور اپنے حریف کو نیچا دکھا نے کے لیے آدمی ہر جائز وناجائز حربہ تلاش کرتا ہے، لیکن احکم الحاکمین کی جانب سے مسلمانوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ ایسے موقع پر بھی عدل وانصاف کی ترازو ہاتھ سے نہ چھوڑیں، بلکہ ہر حال میں عدل وانصاف کو قائم رکھیں:

’’یٰآ أَیُّھَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوَّامِیْنَ لِلّٰہِ شُھَدَائَ بِالْقِسْطِ وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَأٰنُ قَوْمٍ عَلٰی أَنْ لَّا تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا ھُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی وَاتَّقُوْا اللّٰہَ إِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ۔‘‘            (المائدۃ:۸)

’’ اے ایمان والو! کھڑے ہوجایا کرو اللہ کے واسطے گواہی دینے کو اور کسی قوم کی دشمنی کے باعث انصاف کو ہرگز نہ چھوڑو، عدل کرو، یہی بات زیادہ نزدیک ہے تقویٰ سے اور ڈرتے رہو اللہ سے، اللہ کو خوب خبر ہے جو تم کر تے ہو ،

عدل چونکہ صفاتِ الٰہیہ میں شامل ہے، اس لیے قرآن مجید میں حق تعالیٰ نے اسے اپنی کائنات اور اپنی سر زمین پر قائم کرنے کا بھی حکم دیا ہے ۔۔ سورۃ النحل میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

“اِنَّ اللّٰهَ يَاۡمُرُ بِالۡعَدۡلِ وَالۡاِحۡسَانِ” 

“بیشک اللہ عدل کا اور حسن سلوک کا  حکم دیتا ہے ، (سورۃ النحل، آیت نمبر:۹۰)

عدل قانون کا اقتضاء ہے اور احسان کرنا اور در گذر کرنا اخلاق کا مطالبہ ہے ، اور تعالیٰ نے اس آیت میں نظم عالم کو قائم رکھنے کے لیے سب سے پہلے عدل کا حکم دیا ہے ، اور اس کے بعد احسان کی تاکید کی ہے ، 

    اللہ تعالیٰ نے صرف اس مجمل تعلیم پر اکتفاء نہیں کیا ہے بلکہ زندگی کے اہم شعبوں کو لیکر ان میں عدل و انصاف کا حکم دیا ہے ، مثلآ معاشرتی زندگی ، اور اس میں سب سے زیادہ ضرورت ان لوگوں کو ہوتی ہے جو ایک سے زائد شادی کرتے ہیں اس لیے ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے ، 

    “فإن خفتم الا تعدلوا فواحدة أو ما ملكت أيمانكم ” ( نساء ) 

    اسی سے کچھ آگے عورتوں کی طرح بیتیموں کے حقوق کی حفاظت کے لیے بھی عدل و انصاف کا حکم دیا ہے ، 

   ”  و أن تقوموا لليتمي بالقسط ” ( نساء:27 1)

 اور یتیموں کے معاملات میں انصاف برتو

      اسی طرح بعثت انبیاء و رسل بھی نظام عدل پر قائم ہے ، ارشاد ربّانی ہے: 

  “لَـقَدۡ اَرۡسَلۡنَا رُسُلَنَا بِالۡبَيِّنٰتِ وَاَنۡزَلۡنَا مَعَهُمُ الۡكِتٰبَ وَالۡمِيۡزَانَ لِيَقُوۡمَ النَّاسُ بِالۡقِسۡطِ‌ۚ وَاَنۡزَلۡنَا الۡحَـدِيۡدَ فِيۡهِ بَاۡسٌ شَدِيۡدٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَلِيَـعۡلَمَ اللّٰهُ مَنۡ يَّنۡصُرُهٗ وَ رُسُلَهٗ بِالۡغَيۡبِ‌ ؕ اِنَّ اللّٰهَ قَوِىٌّ عَزِيۡزٌ “

    ہم نے اپنے پیغمبروں کو کھلی ہوئی چیزیں دے کر بھیجا ۔ اور ہم نے ان کے ساتھ کتاب کو اور انصاف کرنے کو نازل کیا تاکہ لوگ اعتدال پر قائم رہیں ۔ اور اس لئے بھی تاکہ اللہ جان لے کہ بےدیکھے اس کی اور اسکے پیغمبروں کی مدد کون کرتا ہے ۔ بیشک اللہ (بڑا) قوت والا ہے (بڑا) زبردست ہے ، (سورۃ الحدید، آیت نمبر: ۲۵)

        اس آیت سے معلوم ہوا کہ انبیاء علیہم السلام کی بعثت اور آسمانی کتابوں کے اُتارنے کا سارا نظام عدل و انصاف ہی کے لئے کھڑا کیا گیا ہے، رسولوں کا بھیجنا اور کتابوں کا نازل کرنا اسی مقصد کے لئے عمل میں آیا ہے، پھر کیسے ممکن ہے کہ کسی سچے نبی اور اس کے لائے ہوئے دین کی کوئی تعلیم عدل و انصاف کے خلاف ظلم و تعدی پر مبنی ہو؟

            حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے بھی  عدل کے قیام میں سب لوگوں کے ساتھ یک نیت کا اسلوب اختیار فرمایا، اپنوں اور بیگانوں کے درمیان تفریق کو ختم کر دیا، انصاف میں عربی عجمی، گورے کالے، امیر غریب، اعلیٰ اور ادنیٰ نسب کے تمام تر تعصبات کو ختم کر دیا، یوں  عدل کے قیام میں دنیا کے سامنے نئے نظائر اور جدید شواہد سامنے آئے جن سے انسانیت اس سے قبل محروم تصور کی جاتی تھی،

     مکی زندگی میں اگرچہ نفاذِ عدل کے تقاضے موجود نہ تھے مگر دین حق کی پیشکش میں کوئی امتیاز رَوا نہ رکھا، یہ دعوت سب کے لیے یکساں تھی، اس کی قبولیت کے لیے حلال تھا تو سب کے لئے، حرام تھا تو سب کے لیے حرام تھا، پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری دنیا میں عدل قائم کرنے کی دعوت دی، لوگوں کے درمیان انصاف کرنے کی نہ صرف دعوت دی بلکہ قیامِ امن کی تمام صورتوں کو بروئے کار لائے اور مختلف طبقات کے درمیان پائی جانے والی بے اعتدالیوں کا مداوا کیا،

        عَنْ عَبْدِالّٰلہِ بْنِ عَمْرِوبْنِالْعاَصَ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ إِنَّ الْمُقْسِطِیْنَ عِنْدَاللّٰہِ عَلیٰ مَنَابِرَ مِنْ نُوْرٍ عَنْ یَمِیْنِ الرَّحْمٰنِ عَزَّوَجَلَّ، وَکِلْتَا یَدَیْہِ یَمِیْنٌ: اَلَّذِیْنَ یَعْدِلُوْنَ فِيْ حُکْمِھِمْ وَأَھْلِیْھِمْ، وَمَا وَلُوْا،

(صحیح مسلم:1837)

’’حضرت عبداللہ عمرو بن العاصؓ سے روایت ہے کہ رسولِ خدا ﷺ نے ارشاد فرمایا: عادل و منصف خدا کے یہاں نور کے منبروں پر خدائے رحمٰن عزوجل کے دائیں جانب ہوں گے اور اس کے دونوں ہی ہاتھ اپنے ہاتھ ہے، یعنی وہ عادل و منصف جو اپنے احکام ،اپنے اہل و اپنی ولادیت و حکومت میں عدل کرتے ہیں۔ ‘‘

     اس حدیث میں  اللہ تعالیٰ کے فرمان کو حضور ﷺ نے  بیان فرمایا ہے کہ عدل و انصاف کرنے والے وہ لوگ جو اللہ کے یہاں بڑے مرتبہ پر فائز کیے جائے گے، وہ لوگ جو عدل کے معاملے میں ہر ایک کو یکساں نظر سے دیکھتے ہیں ،  اللہ تعالیٰ جس کا نام ’العدل‘ ہے جو کہ عدل کو پسند فرمانے والا ہے ،

     کیوں کہ قیام عدل کے بغیر کوئی نظام صحیح صورت میں نشوونما نہیں پا سکتا ہے، اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:

وَاِذَا حَكَمۡتُمۡ بَيۡنَ النَّاسِ اَنۡ تَحۡكُمُوۡابِالۡعَدۡلِ‌ (النساء: 58 )

“اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف سے فیصلہ کرو”

      عدل و انصاف ہی وہ پیمانہ ہے، جس کی بدولت انسانیت زندہ ہے، اگر معاشرہ عدل و انصاف سے عاری ہوجائے تو صالح معاشرے کی تشکیل ناممکن ہے،  عدل و انصاف ہی سے انسانی زندگی کا لطف حاصل ہوتا ہے، ورنہ اس کے بغیر معاشرہ دہشت و درندگی کا مرکز بن جاتا ہے، انصاف کا جذبہ ایک ایسا جذبہ ہے، جو انسان کو دنیا و آخرت کی بلندی کی طرف لے جاتا ہے،

      صحیح بخاری شریف میں حضرت ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ  کی حدیث میں ان سات اشخاص کا ذکر آیا ہے جو قیامت کے دن عرشِ الٰہی کے سائے میں ہوں گے، ان میں سر فہر ست امام عادل کا نام آتا ہے:

’’عن أبي ھریرۃ رضي اللّٰہ عنہ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: ’’سبعۃ یظلھم اللّٰہ في ظلہٖ یوم لا ظل إلا ظلہ، إمام عادل ، وشاب نشأ في عبادۃ اللّٰہ ، ورجل معلق قلبہٗ في المساجد، ورجلان تحابا في اللّٰہ اجتمعا علیہ وتفرقاعلیہ، ورجل دعتہ امرأۃ ذات منصب وجمال فقال: إني أخاف اللّٰہ، ورجل تصد ق بصد قۃٍ فأخفاھا حتی لا تعلم شمالہٗ ما تنفق یمینہٗ، ورجل ذکر اللّٰہ خالیاً ففاضت عیناہ۔‘‘  (صحیح البخاری،کتاب الاذان،باب من جلس فی المسجدینتظرالصلوۃوفضل المساجد، ج:۱، ص:۹۱،ط: قدیمی)

دراصل کا ئنات کا نظام ہی عدل وانصاف سے وابستہ ہے، نظامِ عالم کو چلانے کے  لیے عدل وانصاف سے بڑھ کر اور کوئی چیز ضروری نہیں، اس لیے امام و بادشاہ کا عادل ہونا ضروری ہے ،

اسلام اپنے عدل و انصاف کی وجہ سے پورے ارض پر دائم و قائم ہوا ، اسلام اپنے طریقۂ انصاف کے ذریعے کافروں کے دلوں میں اپنی جگہ پیدا کرتا ہے،  حضرت عمر ؓ انصاف کے معاملے میں ہمارے لیے ایک نمونہ ہیں ، پوری اسلامی حکومت وعدل و انصاف کے معاملے میں سخت ترین ہے ،

اسلامی قوانین کا جائزہ لینے کے بعد یہی بات واضح ہوتی ہے کہ اسلام میں عدل و انصاف کو بڑا اہم مقام حاصل ہے، اس کے قوانین چاہے معاشیات سے متعلق ہوں یا حقوق سے، اسلام ہر جگہ منصفانہ اور یکسانیت کا درس دیتا رہا ہے ،