اجد حسن
آج اسلامی تاریخ کا پہلا دن ہے ، آج ہی کے دن امیر المومنین ، مراد قلب رسول ، انتخاب رب العالمین ،فاتح بیت المقدس ، وزیر پیغمبر ، خلیفہ دوم ، فاتح قیصر و کسریٰ، میدان عدالت کے نیر تاباں ، احقاقِ حق کے لیے تیغِ بُرّاں، ابطالِ باطل پہ شمشیرِ عریاں ، مطلوب و محبوب، فاروقِ اعظم، سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ شہادت کے رتبے پر فائز ہوئے،
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ وہ عظیم شخصیت ہیں کہ جن کی عدل و انصاف، جرات و بہادری، روشن خدمات پر مبنی فیصلوں، فتوحات اور شاندار کارناموں سے اسلامی تاریخ منور ہے ،
آپ رضی اللہ عنہ کا اسم گرامی قدر عمر بن خطاب، لقب فاروق اور کنیت ابو حفص ہے، آپ رضی اللہ عنہ کا سلسلہ نسب نویں پشت میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جا ملتا ہے ،
آپ رضی اللہ عنہ ’’عام الفیل‘‘ کے تقریباً 13 سال بعد مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے اور نبوت کے چھٹے سال پینتیس سال کی عمر میں مشرف بہ اسلام ہو ئے،
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمرؓ بن خطاب ہی ہوتے،( لَوْ كَانَ بَعْدِي نَبِيٌّ لَكَانَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ) .
اس دنیا میں جتنے انبیاء مبعوث ہوئے ہیں، ہر ایک کی امت میں ایک محدث ضرور ہوا ہے، اگر میری امت کا کوئی محدث ہے تو وہ عمرؓ ہیں صحابہ کرامؓ نے عرض کیا، محدث کون ہوتا ہے؟ تو فرمایا: جس کی زبان سے فرشتے گفتگو کریں،
قال رسول الله (صلى الله عليه وسلم): «لقد كان فيما قبلكم من الأمم مُحدَّثُون، فإِن يك في أمَّتي أحدٌ؛ فإِنَّه عمر».(طبرانی اوسط)
آپ رضی اللہ عنہ کی فضیلت و اہمیت کا اندازہ ان باتوں سے بھی لگا یا جاسکتا ہے کہ قیدیوں کے سلسلے میں آپ کی رائے اور حکم قتل کا تھا ، بعد میں جب آیت مبارکہ نازل ہوئی اس آیت مبارکہ سے فاروق اعظمؓ کی رائے کی تائید ہوئی ،
اسی طرح آپ رضی اللہ عنہ نے ازواجِ مطہراتؓ کے پردے کی بابت اپنی رائے کا اظہار کیا ، پھر اس سلسلے میں جو آیت نازل ہوئی ، اس سے بھی حضرت عمر کی تجویز کی تائید کی گئی ،
الغرض آپ رضی اللہ عنہ کے اکثر مشورے کلام حق سے موافق ہوئے ، جو انتہائی درجے کی فضیلت اور ذہانت کی بات تھی ،
آپ کے دور خلافت میں جہاں بڑے پیمانے فتوحات ہوئیں ، اور اسلام بہت تیزی کے ساتھ دنیا کے مختلف گوشوں میں پہونچا ، وہیں آپ نے اسلامی نظام کو منظم کرنے کے لیے ایسے اصول و ضوابط بنائے جسے تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکتی ،
جیسے کے ہجری سال کا آغاز ، (بے جا)مذمت کرنے والوں پر حد کا حکم ، شرابی پر اسی(۸۰) کوڑے لگوانے کا حکم ، دفاتر کا قیام ، وزارتوں کا عہدہ ، صدقے کا مال اسلامی امور میں خرچ کرنے سے ممانعت کا حکم ، ترکہ کے مقررہ حصوں کی تقسیم کا نفاذ، شہروں میں (باقاعدہ) قاضی کا تقرر ، عشر و خراج کا نظام ، جیل خانہ ، اور جلا وطنی کی سزا یہ سب آپ ہی کی دین ہے ،
مزید یہ کہ کوفہ، بصرہ، جزیرہ، شام، اور مصر جیسے بڑے بڑے کئی شہروں قیام بھی آپ ہی دور حکومت ہوا ،
اسلام اور حضرت عمر فاروق کے اس عظیم کامیابی و فتوحات سے اہل باطل گھبرا گئے ، اور اسلام اس کے سپوتوں کے خلاف سازشوں کا جال بچھانا شروع کردیا ، اسی سازش کے نتیجہ میں ستائیس ذی الحجہ کو ایک ایرانی مجوسی ابولولو فیروز نے فجر کی نماز میں امیر المومنین کو خنجر مار کر شدید زخمی کردیا ،
پھر یکم محرم الحرام 23 ہجری کو ترسٹھ سال کی عمر بحیثیت شہید اس دار فانی سے دار آخرت کی طرف کوچ کرگئے ، آپ کا روضہ رسول آنحضرت صلی اللہ علیہ کے پہلو مبارک میں ہے ،Hira Online